بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

12 رجب 1446ھ 13 جنوری 2025 ء

دارالافتاء

 

چادر اوڑھ کر نماز پڑھنے کی صورت میں ہاتھ چادر کے اندر رکھنا


سوال

سردیوں میں عام طور پر گرم چادر اوڑھ  کر نماز پڑھتے ہیں، قیام اور قعدہ میں دونوں ہاتھ چادر کے اندر چھپے ہوتے ہیں تو کیا  اس میں کوئی مسئلہ تو نہیں ؟یا دونوں میں ایک ہاتھ نکال کر نماز پڑھیں؟

جواب

سردیوں میں نماز کی حالت میں چادر اس طرح اوڑھنی چاہیے کہ اگر ہاتھ باہر نکالنا چاہیں تو باآسانی نکال سکیں ،بالکل اس طرح  چادر لپیٹ لینا کہ  کوئی جگہ ہاتھ نکالنے کی نہ رہے،ہاتھ باہر نہ نکالے جاسکیں، مکروہ ہے۔

پھر پہلی صورت میں یعنی جب چادر اس طرح اوڑھی ہو کہ ہاتھ باہر نکال سکتا ہو ،اگر قیام اور قعدہ میں دونوں ہاتھ چادر کے اندر ہوں تو کوئی حرج نہیں ہے،ہاتھ باہر نکالنا ضروری نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے :

"(قوله: يكره اشتمال الصماء) لنهيه عليه الصلاة والسلام عنها، وهي أن يأخذ بثوبه فيخلل به جسده كله من رأسه إلى قدمه و لايرفع جانبا يخرج يده منه؛ سمي به لعدم منفذ يخرج منه يده كالصخرة الصماء وقيل أن يشتمل بثوب واحد ليس عليه إزار، وهو اشتمال اليهود زيلعي. وظاهر التعليل بالنهي أن الكراهة تحريمية كما مر في نظائره."

(كتاب الصلاة، باب مايفسد الصلاة و ما يكره فيها،فروع اشتمال الصلاة على الصماء والاعتجار والتلثم والتنخم وكل عمل قليل بلا عذر،1/ 652،  ط: سعيد)

الموسوعۃ الفقہیہ میں ہے :

"وقال جمهور الفقهاء: الأفضل أن يصلي بقميص ورداء، فإن أراد الاقتصار على ثوب واحد فالقميص أفضل من الرداء؛ لأنه أبلغ في الستر، ثم الرداء ثم المئزر، وإن كان يصلي بثوبين فالأفضل القميص والرداء، ثم الإزار أو السراويل مع القميص، ثم أحدهما مع الرداء، والإزار مع الرداء أفضل من السراويل مع الرداء؛ لأنه لبس الصحابة؛ ولأنه لا يحكي تقاطيع الخلقة."

(رداء ،ج:22،ص؛170 ،ط:دارالفكر)

فتاویٰ شامی میں ہے :

"(قوله: هو المراد بالمحاذاة) أي الواقعة في كتب ظاهر الرواية وبعض روايات الأحاديث كما بسطه في الحلية، ووفق بينها وبين روايات الرفع إلى المنكبين، بأن الثاني إذا كانت اليدان في الثياب للبرد كما قاله الطحاوي أخذاً من بعض الروايات، وتبعه صاحب الهداية وغيره، واعتمد ابن الهمام التوفيق بأنه عند محاذاة اليدين للمنكبين من الرسغ تحصل المحاذاة للأذنين بالإبهامين، وهو صريح رواية أبي داود قال في الحلية: وهو قول الشافعي، ومشى عليه النووي وقال في شرح مسلم: إنه المشهور من مذهب الجماهير."

(کتاب الصلوۃ،1 / 482 ،ط:سعید)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144607100305

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں