بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کرکٹ کھیلنے کی ایک صورت کا حکم


سوال

میرے بیٹے کرکٹ کھیلتے ہیں،دونوں ٹیمز کے بچے پیسے جمع کرتے ہیں،  مثلا فی بچہ دس روپے اور ان پیسوں کو انعامی رقم رکھتے ہیں، جیتنے والی ٹیم کو انعام ملے گا، کیا یہ طریقہ کار ٹھیک ہے؟

جواب

کرکٹ ٹورنامنٹ میں کھیلنے اور اس کا شرعی حکم معلوم کرنے سے قبل ایک تمہید ملحوظ رہنا چاہیے کہ   کسی بھی قسم کا کھیل کھیلنا درج ذیل شرائط کے ساتھ جائز ہے: 

1-  وہ کھیل بذاتِ خود جائز کھیل ہو، اس میں کوئی ناجائز   بات نہ ہو۔

2- اس کھیل میں کوئی دینی یا دینوی منفعت  ہو، مثلاً جسمانی  ورزش وغیرہ۔

3-   کھیل میں غیر شرعی امور  (مثلاً جوا وغیرہ)  کا ارتکاب نہ کیا جاتا  ہو۔

4- کھیل میں اتنا غلو نہ کیا جائے  کہ جس سے شرعی فرائض میں کوتاہی یا غفلت پیدا ہو۔

 اگر ان شرائط کی رعایت رکھتے ہوئے کرکٹ ٹورنامنٹ   کھیلا جائے تو فی نفسہ ایسا ٹورنامنٹ کھیلنے   کی اجازت ہے،تاہم  ٹورنامنٹ میں یہ شرط رکھنا کہ  ہر ٹیم اپنے کھلاڑیوں سے  ایک مخصوص رقم جمع کرائے گی اور پھر اس رقم سے ٹورنامنٹ کے اخراجات نکالنے کے بعد  جو رقم بچے گی وہ جیتنے والی ٹیم (ونر ٹیم) کو ملے گی، تو ٹورنامنٹ میں اس طرح کی شرط "قمار" یعنی جوے پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ناجائز وحرام ہے،جس سے بچنا ہر مسلمان کے ذمہ لازم ہے۔

البتہ اس کی  جائز صورت یہ ہو سکتی ہے کہ اگر  مختلف ٹیموں میں مقابلہ کروانے کی کوئی علیحدہ ٹورنامنٹ کمیٹی ہو  جس کا تعلق کسی ٹیم سے نہ ہو،  اور وہ کرکٹ ٹورنامنٹ کمیٹی ہر ٹیم سے متعین رقم مقابلہ میں داخلہ کی فیس کے طور پر  (انٹری فیس) وصول کرے اور یہ رقم (انٹرفیس) کمیٹی کو مالک بنا کر دے دی جائے، پھر ٹورنامنٹ کمیٹی اس جمع شدہ رقم میں سے ٹورنامنٹ کے اخراجات کرے اورجیتنے والوں کو یا کھیل میں اچھی کارکردگی دکھانے والوں کو حسبِ صواب دید انعام دے اور اس بارے میں مکمل با ختیار ہو کہ کم یا زیادہ جتنا چاہے انعام مقر رکرے اور چاہےنقد رقم انعام میں دے یا کوئی ٹرافی وغیرہ دے تو یہ صورت جائز ہے ، بشرطیکہ مقابلہ اور کھیل میں مذکورہ  شرعی حدود سے تجاوز  نہ کیا جائے۔

  تکملۃ فتح الملہم شرح صحیح المسلم میں ہے:

"فالضابط في هذا أن اللهو المجرد الذي لا طائل تحته، وليس له غرض صحيح  مفيد في المعاش ولا المعاد حرام اور مكروه تحريماً، . . . وما كان فيه غرض  ومصلحة دينية أو دنيوية، فإن ورد النهي  عنه من الكتاب أو السنة . . . كان حراماً أو مكروهاً تحريماً، ... وأما مالم يرد فيه النهي عن الشارع وفيه فائدة ومصلحة للناس، فهو بالنظر الفقهي علي نوعين ، الأول ما شهدت التجربة بأن ضرره أعظم من نفعه ومفاسده أغلب علي منافعه، وأنه من اشتغل به الهاه عن ذكر الله  وحده وعن الصلاة والمساجد التحق ذلك بالمنهي عنه لاشتراك العلة فكان حراماً أو مكروهاً، والثاني ماليس كذالك  فهو أيضاً إن اشتغل به بنية التلهي والتلاعب فهو مكروه، وإن اشتغل به لتحصيل تلك المنفعة وبنية استجلاب المصلحة فهو مباح،  بل قد ير تقي إلى درجة الاستحباب أو أعظم منه ... وعلي هذا الأصل فالألعاب التي يقصد بها رياضة الأبدان أو الأذهان جائزة في نفسها مالم يشتمل علي معصية أخري، وما لم يؤد الانهماك فيها إلى الاخلال بواجب الإنسان في دينه و دنياه‘‘.

( کتاب الرؤیا، ج:4، ص:435،  ط:  دارالعلوم کراچی)

المحيط البرهاني في الفقه النعماني میں ہے:

"فإن شرطوا لذلك جعلاً، فإن شرطوا الجعل من الجانبين فهو حرام.

وصورة ذلك: أن يقول الرجل لغيره: تعال حتى نتسابق، فإن سبق فرسك، أو قال: إبلك أو قال: سهمك أعطيك كذا، وإن سبق فرسي، أو قال: إبلي، أو قال: سهمي أعطني كذا، وهذا هو القمار بعينه؛ وهذا لأن القمار مشتق من القمر الذي يزداد وينقص، سمي القمار قماراً؛ لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويستفيد مال صاحبه، فيزداد مال كل واحد منهما مرة وينتقص أخرى، فإذا كان المال مشروطاً من الجانبين كان قماراً، والقمار حرام، ولأن فيه تعليق تمليك المال بالخطر، وإنه لا يجوز.

وإن شرطوا الجعل من أحد الجانبين، وصورته: أن يقول أحدهما لصاحبه إن سبقتني أعطيك كذا، وإن سبقتك فلا شيء لي عليك، فهذا جائز استحساناً، والقياس أن لا يجوز. "

(كتاب الكراهية والاستحسان، فصل فى المسابقة، ج:5، ص:323، ط:دارالكتب العلمية)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144210200435

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں