بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کال سینٹر میں کام کرنا


سوال

اردو کال سینٹر میں نوکری کرنا اور کمیشن لینا کیساہے؟

جواب

واضح رہے کہ کال سینٹر   کسی ادارے کے ایسے انتظام وبندوبست   کو کہا جاتا ہے جہاں کسٹمر  اپنی شکایات کے حل یا معلومات کے حصول کے لیے فون کرے اور نمائندہ اس کو سہولت فراہم کرے؛ لہذا جو   کال سینٹرز کسی ادارے اور کمپنی میں شکایت  سننے یا معلومات وغیرہ فراہم کرنے کے  لیے قائم ہیں ، تو اس میں ملازمت جائز ہونے یا نا جائز ہونے کا مدار  وہاں کے کام پر ہوگا، اگر اس ادارے یا کمپنی کا کام جائز ہو تو ملازمت کرنا جائز ہوگا، ورنہ نہیں۔

صورت مسئولہ میں کال سینٹر میں  جائز اشیاء کا کام  ہو اور اس کام میں کوئی اور  شرعی خرابی نہ پائی جائے تو کمیشن پر اس طرح کام کرنا جائز ہے، لیکن اگر اس کام میں جھوٹ بولنا پڑتا ہو، کال سینٹر والے اپنے آپ کو اسی ملک کا ظاہر کرتے  ہوں جس ملک میں کمپنی ہوتی ہے، اور اپنا نام بھی ان ہی ملکوں کے رہائشیوں کی طرح بتائے  جاتے  ہوں تاکہ خریدار  یہ سمجھے کہ  یہ ہمارے  ملک میں ہی بیٹھ کر ہم سے سودا کررہے ہیں ، تو  اس طرح جھوٹ   بول کر کال سینٹر کا کام  کرنا جائز نہیں  ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به و إن كان في الأصل فاسدًا؛ لكثرة التعامل و كثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام."

( كتاب الإجارة، باب الاجارة الفاسدة،  مطلب في أجرة الدلال،6/63، سعيد)

بدائع الصنائع میں ہے:

"و على هذا يخرج الاستئجار على المعاصي أنه لايصح لأنه استئجار على منفعة غير مقدورة الاستيفاء شرعًا كاستئجار الإنسان للعب واللهو، وكاستئجار المغنية، والنائحة للغناء، والنوح ... وكذا لو استأجر رجلًا ليقتل له رجلًا أو ليسجنه أو ليضربه ظلمًا وكذا كل إجارة وقعت لمظلمة؛ لأنه استئجار لفعل المعصية فلايكون المعقود عليه مقدور الاستيفاء شرعا، فإن كان ذلك بحق بأن استأجر إنسانًا لقطع عضو جاز."

(كتاب الإجارة،فصل في أنواع شرائط ركن الإجارة ،4/ 189،دار الكتب العلمية)

فقط، واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405100747

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں