بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیبل سپلائی کا کام کرنا


سوال

میرا ایک دوست کیبل آپریٹر ہے جو پورے شہر میں سروس فراہم کرتا ہے،   پوچھنا یہ تھا کہ کیبل سے آنے والی کمائی حلال ہے یا حرام؟

جواب

واضح رہے کہ جس چیز کا جائز اور ناجائز دونوں طرح استعمال ہوسکتا ہو اس کی خرید وفروخت، سپلائی، ریپیرنگ وغیرہ جائز ہے، اگر کوئی شخص اس کا غلط استعمال کرتا ہے تو اس کا گناہ اسی پر ہوگا، لیکن جس چیز کا استعمال ہی ناجائز ہو یا وہ معصیت (گناہ) ہی کا آلہ شمار ہوتا ہو اس کی خرید وفروخت یا اس میں کسی قسم کا تعاون جائز نہیں ہے۔

اس تفصیل کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ ٹی وی  کا استعمال جان دار کی تصاویر پر مشتمل پروگرام دیکھنے میں ہوتا ہے اور ان  پروگراموں میں  فحش تصاویرنہ بھی ہوں تب بھی بوجہ تصویر ہونے کے از روئے شرع ان کا دیکھنا اور دکھانا حرام ہے، جب کہ ٹی وی پر آنے والے اکثر پروگرام فحاشی، عریانیت اور بے حیائی پر مشتمل ہوتے ہیں، ٹی وی کا جائز استعمال نہ ہونے کے برابر ہے جب کہ اس کی غرض ہی ناجائز کے لیے ہے،  اس لیے ٹی وی معصیت کا آلہ ہے،  لہٰذا ٹی وی  کی خرید و فروخت اور کاروبار ہی جائز  نہیں ہے،   جب ٹی وی ہی معصیت کا آلہ ہے تو ٹی وی کیبل اس کے لیے معاون ہے ، اور ٹی وی کیبل سپلائی کرنے والا براہِ راست اس گناہ کے کام میں تعاون کرنے والے ہوتا ہے، لہذا ٹی وی کیبل کا کام کرنا، یا اس کی سپلائی کرنا، خواہ وہ کمپنی کرے یا کوئی فرد دوسرے کو دے بہر صورت ناجائز ہے۔

جب کہ انٹرنیٹ کیبل وغیرہ کا جائز اور ناجائز استعمال دونوں طرح ہے، انٹرنیٹ محض ٹی وی پروگرام دیکھنے کے لیے مختص نہیں ہے،  بلکہ انٹرنیٹ کے ذریعے بہت سے جائز کام بھی کیے جاسکتے ہیں، اس لیے انٹرنیٹ کیبل کی سپلائی اور شیئر کرنا جائز ہے، اگر اس کا کوئی ناجائز استعمال کرتا ہے تو اس کا گناہ اسی غلط استعمال کرنے والے پر ہوگا۔

البحرالرائق میں ہے :

"وقد استفيد من كلامهم هنا أن ما قامت المعصية بعينه يكره بيعه، وما لا فلا، ولذا قال الشارح: إنه لايكره بيع الجارية المغنية والكبش النطوح والديك المقاتل والحمامة الطيارة".(5/155)

فتاوی شامی میں ہے :

"وكذا لايكره بيع الجارية المغنية والكبش النطوح والديك المقاتل والحمامة الطيارة؛ لأنه ليس عينها منكراً، وإنما المنكر في استعمالها المحظور اهـ  قلت: لكن هذه الأشياء تقام المعصية بعينها لكن ليست هي المقصود الأصلي منها، فإن عين الجارية للخدمة مثلاً والغناء عارض فلم تكن عين المنكر، بخلاف السلاح فإن المقصود الأصلي منه هو المحاربة به فكان عينه منكراً إذا بيع لأهل الفتنة، فصار المراد بما تقام المعصية به ما كان عينه منكر بلا عمل صنعة فيه، فخرج نحو الجارية المغنية؛ لأنها ليست عين المنكر، ونحو الحديد والعصير؛ لأنه وإن كان يعمل منه عين المنكر لكنه بصنعة تحدث فلم يكن عينه". (4/268)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144112200861

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں