بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بوڑھی عورت کا اکیلے ہونے کی وجہ سے عدت کے اندر اپنے بیٹوں کے گھر جانے کا حکم


سوال

میری والدہ کی عمر 70 سال سے زیادہ ہے،میرے والد کا انتقال 8 جنوری کو ہوا ہے،میری والدہ عدت میں ہیں ،ہم دو بھائی ہیں اور الگ رہتے ہیں ، کیا میری والدہ عدت میں میرے ہاں   آسکتی ہیں ؟ کیوں کہ گھر میں وہ اکیلی ہوتی ہیں، وہ چاہتی ہیں 15 دن میرے پاس رہیں اور 15 دن بھائی کے پاس ،کیا وہ شرعاً اس طرح  کر سکتی ہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ عورت کے لیے طلاق یا شوہر کے انتقال کی صورت میں شوہر کے گھر میں ہی عدت گزارنا لازم ہے، عام حالات میں دورانِ عدت وہاں سے کسی اور جگہ رہائش منتقل کرنا جائز نہیں ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں جب تک ممکن ہو  سائل کی والدہ کا  عدت کے دوران مرحوم شوہر  کے گھر  سے منتقل ہونا جائز نہیں ، اگر سائل کی والدہ اپنے شوہر کے گھر سے  صرف  اکیلے ہونے کی وجہ سے اپنے بیٹوں کے گھر میں جانا چاہتی ہیں اور اس کے علاوہ  کوئی اور  مجبوری نہیں ہے،مثلاً :معذوری وغیرہ یا جان و مال کے تلف ہونے کا خوف نہیں  ہے  تو اس صورت میں سائل  کی والدہ پر اپنے شوہر کے گھر میں ہی عدت گزارنا لازم ہے،اس صورت میں سائل اور  سائل کے بھائی کو چاہیے کہ  وہ باری باری اپنی والدہ کے ساتھ آکر رہیں یا اپنی اپنی بیویوں کو والدہ کے ساتھ رہنے کا انتظام کریں یااور  کوئی متبادل انتظام کیاجانا ممکن ہوتو وہ انتظام کریں ،  مثلاً :کوئی عزیز رشتہ دار  یا کوئی خادمہ وغیرہ کا بندو بست  کریں  جو سائل کی والدہ کے ساتھ رہے تا کہ سائل کی والدہ کا اکیلے ہونے کی صورت میں  دل نہ گھبرائے۔

البتہ اگر  سائل اور سائل کے بھائی یا ان کی بیویوں میں سے کسی بیوی وغیرہ کا کسی شدید عذرکی بنا پراپنی والدہ کے ساتھ رہنا ممکن نہ ہو اور  سائل کی والدہ کا بھی تنہا اپنے گھر میں رہنا  ممکن نہ ہو کسی بیماری یا خوف کی وجہ سے تو پھر اس عذر کی بنا پرسائل کی والدہ کے لیے  اپنے کسی ایک بیٹے کے گھر میں منتقل ہونے کی گنجائش ہے ،لیکن اس صورت میں بھی سائل کی والدہ کے لیے لازم ہے کہ قریب  کسی ایک بیٹے کے گھر میں باقی ماندہ عدت  پوری کریں  ،ہر پندرہ دن بعد دوسرے بیٹے کے گھر جانے کی اجازت نہیں  ہوگی ۔

الدر المختارمع رد المحتارمیں ہے:

" (وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولايخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لاتجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه۔(قوله: ونحو ذلك) منه ما في الظهيرية: لو خافت بالليل من أمر الميت والموت ولا أحد معها لها التحول - والخوف شديد - وإلا فلا".

 (کتاب الطلاق،باب العدۃ،فصل فی الحداد،ج:3،ص؛536،ط:سعید)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"وأما في حالة الضرورة فإن اضطرت إلى الخروج من بيتها بأن خافت سقوط منزلها أو خافت على متاعها أو كان المنزل بأجرة ولا تجد ما تؤديه في أجرته في عدة الوفاة فلا بأس عند ذلك أن تنتقل، وإن كانت تقدر على الأجرة لا تنتقل، وإن كان المنزل لزوجها وقد مات عنها فلها أن تسكن في نصيبها إن كان نصيبها من ذلك ما تكتفي به في السكنى وتستتر عن سائر الورثة ممن ليس بمحرم لها، وإن كان نصيبها لايكفيها أو خافت على متاعها منهم فلا بأس أن تنتقل، وإنما كان كذلك؛ لأن السكنى وجبت بطريق العبادة حقا لله تعالى عليها، والعبادات تسقط بالأعذار، وقد روي أنه لما قتل عمر - رضي الله عنه - نقل علي - رضي الله عنه - أم كلثوم - رضي الله عنها - لأنها كانت في دار الإجارة، وقد روي أن عائشة - رضي الله عنها - نقلت أختها أم كلثوم بنت أبي بكر - رضي الله عنه - لما قتل طلحة - رضي الله عنه - فدل ذلك على جواز الانتقال للعذر، وإذا كانت تقدر على أجرة البيت في عدة الوفاة فلا عذر، فلا تسقط عنها العبادة كالمتيمم إذا قدر على شراء الماء بأن وجد ثمنه وجب عليه الشراء وإن لم يقدر لايجب لعذر العدم.

كذا ههنا، وإذا انتقلت لعذر يكون سكناها في البيت الذي انتقلت إليه بمنزلة كونها في المنزل الذي انتقلت منه في حرمة الخروج عنه؛ لأن الانتقال من الأول إليه كان لعذر فصار المنزل الذي انتقلت إليه كأنه منزلها من الأصل فلزمها المقام فيه حتى تنقضي العدة".

(کتاب الطلاق،فصل فی احکام العدۃ،ج:3،ص:205،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100248

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں