بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 ذو الحجة 1446ھ 23 جون 2025 ء

دارالافتاء

 

بیوی نے کہا کہ مجھے چھوڑ دو اور شوہر نے کہا کہ چھوڑ دیا، اس صورت میں طلاق کا حکم


سوال

 میاں بیوی کا میسج پر جھگڑا ہوا اور بیوی نے کہا کہ مجھے چھوڑ دو اور شوہر نے کہا کہ چھوڑ دیا، تو کیا  دونوں کے درمیان طلاق ہو گئی اور اگر ہوگئی تو کتنی طلاقیں ہوئیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سوال کی خط کشیدہ عبارت کے مطابق شوہر نےبیوی کی جانب سے علیحدگی کے مطالبہ پر جو اُسے کہا کہ ”چھوڑ دیا“ ، اِن الفاظ سے بیوی پر ایک طلاق رجعی واقع ہوگئی، اگرچہ شوہر نے یہ الفاظ طلاق کی نیت سے نہ کہے ہوں، اور اگر شوہر نے اِس کے علاوہ مزید الفاظ طلاق استعمال نہیں کیے ہیں، تو اُسے بیوی کی عدت  (پوری تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو اگر حمل ہو تو بچہ کی پیدائش تک کی مدت) میں رجوع کا حق حاصل ہے،اگر شوہر نے  عدت میں قولاًوفعلاً  رجوع کرلیا یعنی زبان سے یہ کہہ دیا کہ میں نے رجوع کرلیا ہے  یا ازدواجی تعلقات قائم کرلیے تو اس سے رجوع درست ہوجائے گا  اور میاں بیوی کا نکاح برقرار  رہے گا۔نیز اگر شوہر نے عدت میں رجوع نہیں کیا تو عدت گزرتے ہی طلاقِ بائنہ سے نکاح  ٹوٹ جائے گا،اور میاں بیوی کا تعلق ختم ہوجائے گا، بعد ازاں  اگر میاں بیوی باہمی رضامندی سے دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو شرعی  گواہان کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرنا پڑے گا۔  اور دونوں صورتوں میں(عدت میں رجوع کرے یا عدت کے بعد نکاحِ جدید کرے) شوہر نے اگر اس  سے پہلے کوئی اور طلاق نہ دی ہو تو  اُسے مزید دو طلاقوں کا اختیار ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"بخلاف فارسية قوله سرحتك وهو " رهاء كردم " لأنه صار صريحا في العرف على ما صرح به نجم الزاهدي الخوارزمي في شرح القدوري اهـ وقد صرح البزازي أولا بأن: حلال الله علي حرام أو الفارسية لا يحتاج إلى نية، حيث قال: ولو قال حلال " أيزدبروي " أو حلال الله عليه حرام لا حاجة إلى النية، وهو الصحيح المفتى به للعرف وأنه يقع به البائن لأنه المتعارف ثم فرق بينه وبين سرحتك فإن سرحتك كناية لكنه في عرف الفرس غلب استعماله في الصريح فإذا قال " رهاكردم " أي سرحتك يقع به الرجعي مع أن أصله كناية أيضا، وما ذاك إلا لأنه غلب في عرف الفرس استعماله في الطلاق وقد مر أن الصريح ما لم يستعمل إلا في الطلاق من أي لغة كانت."

(کتاب الطلاق، باب الکنایات، ج:3، ص:399، ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"وإذا طلق الرجل امرأته ‌تطليقة ‌رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض كذا في الهداية."

(كتاب الطلاق، الباب السادس في الرجعة، ج:1، ص:470، ط:دارالفكر)

فقط والله تعالى اعلم


فتوی نمبر : 144612100554

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں