اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے: ’’تجھے حرام کر دوں گا‘‘ یا صرف لفظِ حرام کہا تو کیا حکم ہے؟
بیوی کو ’’تجھے حرام کردوں گا‘‘ کہنے سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی، البتہ اگر بیوی کی طرف نسبت یا اشارہ کرکے صرف لفظ ’’حرام‘‘ کہا تو اس سے ایک طلاق بائنہ واقع ہوجائے گی اور دوبارہ ساتھ رہنے کے لیے نئے مہر کے ساتھ گواہوں کی موجودگی میں نیا نکاح کرنا پڑے گا، اور اگر اس کے علاوہ کبھی کوئی طلاق نہیں دی تو آئندہ کے لیے شوہر کے پاس مزید صرف دو طلاقوں کا اختیار باقی رہ جائے گا۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 252):
"ومن الألفاظ المستعملة: الطلاق يلزمني، والحرام يلزمني، وعلي الطلاق، وعلي الحرام فيقع بلا نية للعرف.
(قوله: فيقع بلا نية للعرف) أي فيكون صريحاً لا كنايةً، بدليل عدم اشتراط النية وإن كان الواقع في لفظ الحرام البائن؛ لأن الصريح قد يقع به البائن كما مر، لكن في وقوع البائن به بحث سنذكره في باب الكنايات، وإنما كان ما ذكره صريحاً؛ لأنه صار فاشياً في العرف في استعماله في الطلاق لايعرفون من صيغ الطلاق غيره ولايحلف به إلا الرجال، وقد مر أن الصريح ما غلب في العرف استعماله في الطلاق بحيث لايستعمل عرفاً إلا فيه من أي لغة كانت، وهذا في عرف زماننا كذلك فوجب اعتباره صريحاً كما أفتى المتأخرون في أنت علي حرام بأنه طلاق بائن للعرف بلا نية مع أن المنصوص عليه عند المتقدمين توقفه على النية".
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144201201111
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن