بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 ذو القعدة 1445ھ 13 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کے نشوز (نافرمانی) کی وجہ سے بچوں کا نفقہ روکنے کا حکم، بچوں کو والد سے ملنے نہ دینے کا حکم


سوال

بیوی کے نشوز کے دوران کیا والد بچوں کا نان نفقہ موقوف کرسکتا ہے حالات کو  سدھارنے کے ارادہ سے اور والدہ کو احساس دلانے  کے لیے؟  بچے اپنی والدہ کے ساتھ ہیں اور والدہ بچوں کو والد سے  ملنے اور بات کرنے سے روکی  ہوئی ہے، ڈراتی اور ڈانٹتی  ہے!

جواب

بیوی کے نشوز (نافرمانی) کی وجہ سے شوہر بیوی کا نفقہ تو روک سکتا ہے، لیکن بیوی کے نشوز کی وجہ سے شوہر کو بچوں کا نفقہ روکنے کا حق حاصل نہیں  ہے۔ باقی بیوی کا بچوں کا والد سے ملنے اور بات کرنے سے روکنا شرعًا ظلم اور حق تلفی ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے اور اس کی وجہ سے بیوی گناہ کی مرتکب ہوگی۔

"نفقة الأولاد الصغار علي الأب، لا يشاركه أحدٌ، كذا في الجوهرة النيرة."

(الفتاوى الهندية، الفصل الرابع في نفقة الأولاد، ١/ ٥٦٠، ط: رشيدية)

"المحیط البرہانی" میں ہے:

"و المعنى في ذلك أن النفقة إنما تجب عوضاً عن الاحتباس في بيت الزوج، فإذا كان الفوات لمعنى من جهة الزوج أمكن أن يجعل ذلك الاحتباس باقياً تقديراً، أما إذا كان الفوات بمعنى من جهة الزوجة لا يمكن أن يجعل ذلك الاحتباس باقياً تقديراً، وبدونه لا يمكن إيجاب النفقة." (4/170)

"بدائع الصنائع" میں ہے:

"( فصل ) : وأما شرط وجوب هذه النفقة، فلوجوبها شرطان : أحدهما يعم النوعين جميعاً أعني : نفقة النكاح ونفقة العدة .

والثاني يخص أحدهما وهو نفقة العدة. أما الأول، فتسليم المرأة نفسها إلى الزوج وقت وجوب التسليم ونعني بالتسليم : التخلية، وهي أن تخلي بين نفسها وبين زوجها برفع المانع من وطئها أو الاستمتاع بها حقيقةً إذا كان المانع من قبلها، أو من قبل غير الزوج، فإن لم يوجد التسليم على هذا التفسير وقت وجوب التسليم ؛ فلا نفقة لها. وعلى هذا يخرج مسائل : إذا تزوج بالغةً حرةً صحيحةً سليمةً ونقلها إلى بيته فلها النفقة؛ لوجود سبب الوجوب و شرطه، وكذلك إذا لم ينقلها و هي بحيث لاتمنع نفسها و طلبت النفقة ولم يطالبها بالنقلة فلها النفقة ؛ لأنه وجد سبب الوجوب وهو استحقاق الحبس، وشرطه وهو التسليم على التفسير الذي ذكرنا، فالزوج بترك النقلة ترك حق نفسه مع إمكان الاستيفاء، فلا يبطل حقها في النفقة، فإن طالبها بالنقلة فامتنعت، فإن كان امتناعها بحق بأن امتنعت لاستيفاء مهرها العاجل ، فلها النفقة ؛ لأنه لا يجب عليها التسليم قبل استيفاء العاجل من مهرها ، فلم يوجد منها الامتناع من التسليم وقت وجوب التسليم." (8/142)

وفي الهداية، (2/436):

"(وإذا أرادت المطلقة أن تخرج بولدها من المصر فليس لها ذلك) لما فيه من الإضرار بالأب."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144208200999

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں