بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کا نام لیے بغیر تین مرتبہ طلاق کہنے سے طلاق کا حکم


سوال

اگر کسی نے اپنے بیوی  کو ایک  حالت میں تین طلاق دے دیں  اور  اپنی  بیوی  کے نام خطاب نہیں کیا اور بیوی نے یہ نہیں سنا تو اس کا حکم کیا ہے؟

جواب

اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کا نام لیے بغیر اس کو طلاق دینے کی نیت سے تین مرتبہ لفظ  طلاق کہا تو اس کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوجائیں  گی، چاہے اس کی بیوی نے سنا ہو یا نہ سنا ہو؛ کیوں ک ہ اگرچہ ان الفاظ میں صراحتًا  بیوی کی طرف اضافت نہیں ہے، لیکن معنوی اضافت موجود ہے ، اس لیے تینوں طلاقیں واقع ہونے کی وجہ سے اب اس  کی زوجہ اس پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہے،  نکاح ختم ہوچکا ہے، لہٰذا  رجوع اور  دوبارہ نکاح ناجائز اور حرام ہے، زوجہ   عدت  (تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو اور اگر حمل ہو تو بچہ کی پیدائش تک) گزار کر دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہے، البتہ جب بیوی اپنی عدت گزار کر  دوسری جگہ شادی کرے اور دوسرے شوہر  سے  صحبت  (جسمانی تعلق)  قائم ہوجائے پھر اس کے بعد دوسرا شوہر اس کو طلاق دے دے یا اس کا انتقال ہوجائے تو اس کی عدت گزار کر پہلے شوہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرسکتی ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 248):

"لأنه لو قال: إن خرجت يقع الطلاق أو لاتخرجي إلا بإذني فإني حلفت بالطلاق فخرجت لم يقع لتركه الإضافة إليها.

(قوله: لتركه الإضافة) أي المعنوية فإنها الشرط و الخطاب من الإضافة المعنوية، و كذا الإشارة نحو هذه طالق، و كذا نحو امرأتي طالق و زينب طالق. اهـ. أقول: و ما ذكره الشارح من التعليل أصله لصاحب البحر أخذًا من قول البزازية في الأيمان قال لها: لاتخرجي من الدار إلا بإذني فإني حلفت بالطلاق فخرجت لايقع لعدم حلفه بطلاقها، و يحتمل الحلف بطلاق غيرها فالقول له. اهـ. و مثله في الخانية، و في هذا الأخذ نظر، فإنّ مفهوم كلام البزازية: أنه لو أراد الحلف بطلاقها يقع؛ لأنه جعل القول له في صرفه إلى طلاق غيرها، و المفهوم من تعليل الشارح تبعًا للبحر عدم الوقوع أصلًا لفقد شرط الإضافة، مع أنه لو أراد طلاقها تكون الإضافة موجودة و يكون المعنى فإني حلفت بالطلاق منك أو بطلاقك، و لايلزم كون الإضافة صريحةً في كلامه؛ لما في البحر لو قال: طالق فقيل له: من عنيت؟ فقال: امرأتي طلقت امرأته. اهـ. على أنه في القنية قال عازيًا إلى البرهان صاحب المحيط: رجل دعته جماعة إلى شرب الخمر فقال: إني حلفت بالطلاق أني لا أشرب و كان كاذبًا فيه ثم شرب طلقت. وقال صاحب التحفة: لا تطلق ديانة اهـ وما في التحفة لا يخالف ما قبله لأن المراد طلقت قضاء فقط، لما مر من أنه لو أخبر بالطلاق كاذبا لا يقع ديانة بخلاف الهازل، فهذا يدل على وقوعه وإن لم يضفه إلى المرأة صريحا، نعم يمكن حمله على ما إذا لم يقل إني أردت الحلف بطلاق غيرها فلا يخالف ما في البزازية ويؤيده ما في البحر لو قال: امرأة طالق أو قال طلقت امرأة ثلاثا وقال لم أعن امرأتي يصدق اهـ ويفهم منه أنه لو لم يقل ذلك تطلق امرأته، لأن العادة أن من له امرأة إنما يحلف بطلاقها لا بطلاق غيرها، فقوله إني حلفت بالطلاق ينصرف إليها ما لم يرد غيرها لأنه يحتمله كلامه، بخلاف ما لو ذكر اسمها أو اسم أبيها أو أمها أو ولدها فقال: عمرة طالق أو بنت فلان أو بنت فلانة أو أم فلان، فقد صرحوا بأنها تطلق، وأنه لو قال: لم أعن امرأتي لا يصدق قضاء إذا كانت امرأته كما وصف كما سيأتي قبيل الكنايات وسيذكر قريبا أن من الألفاظ المستعملة: الطلاق يلزمني، والحرام يلزمني، وعلي الطلاق، وعلي الحرام، فيقع بلا نية للعرف إلخ. فأوقعوا به الطلاق مع أنه ليس فيه إضافة الطلاق إليها صريحا، فهذا مؤيد لما في القنية، وظاهره أنه لا يصدق في أنه لم يرد امرأته للعرف، والله أعلم."

فتاویٰ تاتارخانیہ میں ہے:

"وفي الظهيرية: ومتى كرر لفظ الطلاق بحرف الواو أو بغير حرف الواو يتعدد وإن عنى بالثاني الأول لم يصدق في القضاء كقوله يا مطلقة أنت طالق ... وفي الحاوي: ولو قال ترا يك طلاق يك طلاق يك طلاق! بغير العطف وهي مدخول بها تقع ثلاث تطليقات."

(كتاب الطلاق، الفصل الرابع، فيما يرجع إلى صريح الطلاق 4/427/ 429، ط: مكتبة زكريا، ديوبند هند)

بدائع الصنائع میں ہے:

"و حال الغضب ومذاكرة الطلاق دليل إرادة الطلاق ظاهرًا فلايصدق في الصرف عن الظاهر."

(كتاب الطلاق، فصل في النية في نوعي الطلاق ج3، ص: 102، دار الكتب العلمية)

ہندیہ میں ہے:

"و إن كان الطلاق ثلاثًا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجًا غيره نكاحًا صحيحًا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها، كذا في الهداية." (3/473، ط: ماجدية)

البحر الرائق میں ہے:

"و عدة الحامل وضع الحمل؛ لقوله تعالى: ﴿وأولات الأحمال أجلهن أن يضعن حملهن﴾ [الطلاق: 4]

(باب العدة: ج4، ص133، ط: سعيد)

بدائع الصنائع میں ہے:

"و أما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضًا حتى لايجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر."

(كتاب الطلاق، فصل في حكم الطلاق البائن 3/187، ط: سعيد)

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله: و مبدأ العدة بعد الطلاق والموت) یعنی ابتداء عدة الطلاق من وقته ... سواء علمت بالطلاق والموت أو لم تعلم حتى لو لم تعلق ومضت مدة العدة فقد انقضت؛ لأن سبب وجوبها الطلاق ... فيعتبر ابتداؤها من وقت وجود السبب، كذا في الهداية."

(كتاب الطلاق، باب العدة، 4/144/ ط: سعيد)

امداد الفتاویٰ میں ہے:

’’سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں میں نے حالت غصہ میں یہ کلمے کہے ہیں: (طلاق دیتا ہوں طلاق طلاق) اور میں نے کوئی کلمہ فقرہ بالا سے زیادہ نہیں کہا اور نہ میں نے اپنی منکوحہ کا نام لیا اور نہ اس کی طرف اشارہ کیا اور نہ وہ اس جگہ موجود تھی اور نہ اس کی کوئی خطا ہے یہ کلمہ صرف بوجہ تکرار (یعنی نزاع) یعنی میری منکوحہ کی تائی کے نکلےجس وقت میرا غصہ فرو ہوا فوراً اپنی زوجہ کو لے آیا ان دو اشخاص ہیں ایک میرے ماموں اور ایک غیرشخص ہے اور مستوراتیں ہیں؟

الجواب: چوں کہ دل میں اپنی منکوحہ کو طلاق دینے کا قصد تھا؛ لہٰذا تینوں طلاقیں واقع ہوگئیں۔‘‘

فتاویٰ دارالعلوم دیوبند میں ہے:

’’سوال: زید نے اپنے والدین سے غصہ کی حالت میں بوجہ خفگی والدین اس کی زوجہ پر اور اس پر یہ الفاظ کہے: طلاق، طلاق، طلاق، تین مرتبہ یعنی اس لفظ طلاق کو کسی طرف منسوب نہیں  کیا اور یہ کہا کہ میں کہیں چلا جاؤں گا یا بھیک مانگ کر کھاؤں گا، آیا یہ طلاق ہوگئی یا نہیں؟

جواب: موافق تصریح علامہ شامی کے اس صورت میں زید کی زوجہ مطلقہ ثلاثہ ہوگئی۔‘‘

(کتاب الطلاق 9/196، ط: دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144109203213

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں