بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کو غصہ میں ماں کہنے کا حکم


سوال

بیوی کو غصے میں ماں کہنا کیسا ہے ؟

جواب

صورت ِ مسئولہ میں  اپنی بیوی کو ماں کہنا شریعت کی رو سے درست نہیں ہے، فقہائے کرام نے لکھا ہے کہ اپنی بیوی کو ماں، بہن یا بیٹی کہنا مکروہ ہے۔ سوال میں مذکورہ جملہ میں چوں کہ ماں سے تشبیہ دینا نہیں پایا جارہا، بلکہ بیوی کو ہی ماں کہا ہے، اس لیے ان الفاظ سے نہ ظہار ہوگا اور نہ ہی طلاق، لہٰذا زوجین کے نکاح میں کوئی اثر نہیں پڑے گا، دونوں کا نکاح بدستور قائم ہے،البتہ آئندہ اس قسم کے الفاظ کہنے سے اجتناب کیا جائے ۔

فتاوی شامی میں ہے :

"(وإن نوى بأنت علي مثل أمي) ، أو كأمي، وكذا لو حذف علي خانية (برا، أو ظهارا، أو طلاقا صحت نيته) ووقع ما نواه لأنه كناية (وإلا) ينو شيئا، أو حذف الكاف (لغا) وتعين الأدنى أي البر، يعني الكرامة. ويكره قوله أنت أمي ويا ابنتي ويا أختي ونحوه.

(قوله: ويكره إلخ) جزم بالكراهة تبعا للبحر والنهر والذي في الفتح: وفي أنت أمي لا يكون مظاهرا، وينبغي أن يكون مكروها، فقد صرحوا بأن قوله لزوجته يا أخية مكروه. وفيه حديث رواه أبو داود «أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - سمع رجلا يقول لامرأته يا أخية فكره ذلك ونهى عنه» ومعنى النهي قربه من لفظ التشبيه، ولولا هذا الحديث لأمكن أن يقال هو ظهار لأن التشبيه في أنت أمي أقوى منه مع ذكر الأداة، ولفظ " يا أخية " استعارة بلا شك، وهي مبنية على التشبيه، لكن الحديث أفاد كونه ليس ظهارا حيث لم يبين فيه حكما سوى الكراهة والنهي، فعلم أنه لا بد في كونه ظهارا من التصريح بأداة التشبيه شرعا، ومثله أن يقول لها يا بنتي، أو يا أختي ونحوه. اهـ"

(کتاب الطلاق،باب الظہار،ج:3،ص:470،سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406100943

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں