بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کی نافرمانی کی صورت میں دوسری شادی کرنا


سوال

میری شادی 19 مئی 2013ء کو ہوئی تھی، شادی کے کچھ مہینے کے بعد میں اپنی فیملی کو مسقط لے گیا، وہاں سب کچھ ٹھیک تھا، ہمارے دو بچے بھی ہوئے، جو اب دواورتین سال کے ہیں، دو سال قبل فیملی نے پاکستان شفٹ ہونے کا فیصلہ کیا، پاکستان آنے کے بعد میری زوجہ کا رویہ خراب ہوگیا، جھوٹے الزام اور بار بار ناراض ہو کر وہ اپنے گھر چلی جاتی، اور بنا اجازت دیر تک گھر سے باہر رہتی تھی، ان دو سالوں میں، میں تین بار پاکستان آیا، اور معاملات درست کرنے کی کوشش کی، مگر بیوی کسی طور پر نہیں مان رہی اور 3 جون 2021ء کو بچوں کو لے کر میکے چلی گئی، بچوں کو بھی مجھ سے متنفر کردیا اور نہ ہی مجھے بچوں سے ملاقات کرنے دیتی ہے۔ 

مجھے بتائیں کہ کیا میں دوسری شادی کرسکتا ہوں یا نہیں؟ دوسری شادی کی صورت میں میرے سسرال والے کس طرح کی قانونی کارووائی کرنے کے مجاز ہوں گے یا نہیں؟ یاد رہے کہ نکاح نامہ میں ایسی کوئی شرط نہیں رکھی تھی کہ میں دوسری شادی نہیں کرسکتا وغیرہ۔ 

جواب

واضح رہے کہ شریعت مطہرہ میں مرد کو بیک وقت چار شادیاں کرنے کی اجازت ہے، بشرطیکہ سب میں  انصاف کر سکے۔

اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

"وَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِي الْيَتٰمٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَاۗءِ مَثْنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ ۚ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ  ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَلَّا تَعُوْلُوْا۔"

(النساء:3)

اور اگر تم کواس بات کا احتمال ہو کہ تم یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کر سکوگے تو اورعورتوں سے جوتم کو پسند ہوں نکاح کرلو دو دوعورتوں سے اور تین تین عورتوں سے اور چارچار عورتوں سے، پس اگر تم کو احتمال اس کا ہو کہ عدل نہ رکھوگے تو پھر ایک ہی بی بی پر بس کرو یا جو لونڈی تمہاری ملک میں ہو وہی سہی، اس امرمذکور میں زیادتی نہ ہونے کی توقع قریب ترہے۔ (بیان القرآن )

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ مرد کو ایک سے زائد چار تک شادیاں کرنے کی اجازت اس صورت میں جب وہ انصاف کر سکے، جس کے لیے ضروری ہے کہ وہ دوسری شادی کے لیے جسمانی اور مالی طاقت رکھتا ہو اور اس میں بیویوں کے درمیان برابری کرنے کی اہلیت ہو، لہذا اگر کسی شخص میں جسمانی یا مالی طاقت نہیں یا اسے خوف ہے کہ وہ دوسری شادی کے بعد برابری نہ کرسکے گا تو اس کے لیے دوسری شادی کرنا جائز نہیں.

سنن ابی داؤد   میں ہے:

"عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "من كانت له امرأتان، فمال إلى أحدهما جاء يوم القيامة وشقه مائل."

(سنن أبي داؤد 3 /469 ،كتاب النكاح، باب فى القسم بين النساء،2/ 297،ط:حقانية)

ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس شخص کی دو بیویاں ہوں اور وہ کسی ایک کی جانب جھک جائے تو قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کی ایک جانب فالج زدہ ہوگی.

مذکورہ بالا تفصیل کی روسےسائل اگر دوسری شادی کے لیے جسمانی اور مالی طاقت رکھتاہے،اور دوسری شادی کے بعد دونوں بیویوں کے حقوق خوش اسلوبی سے برابری کے ساتھ ادا کرسکتاہے تو سائل کے لیے دوسری شادی کرنے کی اجازت ہے، تاہم دوسری شادی سے پہلے اگر اپنی اہلیہ کو اعتماد میں لے تو بہتر ہے ؛تاکہ مستقبل میں ذہنی پریشانیوں سے محفوظ رہ سکے۔

اگر دوسری شادی کے لیےسائل کے پاس مالی یا جسمانی طاقت نہیں یا دوسری شادی کے بعد بیویوں میں برابری نہیں کرسکےگا تو سائل کے لیے دوسری شادی کرنا جائز نہیں.

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100863

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں