بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیماری کی وجہ سے حمل ساقط کروانا


سوال

میری زوجہ کو  12 نومبر کو ماہواری آنی تھی جو کہ نہیں آئی اور حمل ٹھر گیا۔ آج مورخہ 31  جنوری کو الٹراساونڈ رپورٹ میں حمل کا دورانیہ  11  ہفتہ اور بچہ  8  ہفتہ کی عمر کا بتایا ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ بچہ میں دل کی دھڑکن نہیں ہے، جتنی جلدی ہو سکے حمل کو ختم کر وادیں،   مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ میں کیا کروں،  حمل ختم کرواؤں یا نہیں؟  میرے پاس وقت بھی کم ہے انشااللہ  6  فروری کو میری چلے پر بھی روانگی ہے۔ اور میرا یقین ہے اللہ رب العزت میرے حق میں بہتر کرے گا، کیا میں انتظار کروں کہ اللہ پاک جس نے  ماں کے پیٹ میں حمل تخلیق کیا، وہی دھڑکن بھی دینے والا ہے ؟

جواب

اگر  حمل  چار  ماہ  سے  کم کا ہو  اور  دین دار  اور  ماہر ڈاکٹر یہ کہہ دے کہ بچہ کی پیدائش کی وجہ سے  ماں کی جان کو یقینی یا غالب گمان کے مطابق خطرہ ہے یا ماں کی صحت حمل کاتحمل نہیں کرسکتی تو ان  جیسےاعذار کی بنا پر  حمل میں روح پڑجانے سے پہلے   پہلے (جس کی مدت تقریباً چار ماہ ہے)    اسے ساقط کرنے کی گنجائش ہوگی،  چار ماہ کے بعد کسی صورت میں اسقاط حمل جائزنہیں ہے۔

یاد رہے کہ الٹرا ساؤنڈ میں بچے کی کسی بیماری کا علم یقینی نہیں، بلکہ گمان کے درجے میں ہوتا ہے، اور  اگر واقعی بیماری ہوبھی تو اللہ پاک بقیہ مدت میں بچے کی  تکمیل اور اسے صحت دینے پر قدرت رکھتے ہیں۔  اوربالفرض بچہ صحیح سالم نہ ہو  اور چار ماہ یا اس سے زیادہ حمل کی مدت ہوجائے تو پھر اس کااسقاط جائز نہیں، کیوں کہ بیمار انسان کو مارناجائز نہیں۔

اگر آپ کو ڈاکٹروں نے کسی بیماری کا الٹراساؤنڈ کے ذریعہ بتلایابھی ہے تو ایسی صورت میں  اللہ پاک سے صحت یابی کی دعاکرنی چاہیے  اوراللہ پاک سے  اچھی امید رکھنی چاہیے، اور  اس وجہ سے حمل ساقط نہیں کرناچاہیے ۔

الدرالمختار مع الشامية، کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغیره، ، کراچی ۶/ ۴۲۹:

"العلاج لإسقاط الولد إذا استبان خلقه کالشعر والظفر ونحوهما لایجوز، وإن کان غیر مستبین الخلق یجوز … امرأة مرضعة ظهربها حبل وانقطع لبنها، وتخاف علی ولدها الهلاک، ولیس لأبي هذا الولد سعة حتی یستأجر الظئر یباح لها أن تعالج في استنزال الدم مادام نطفة أو مضغة أو علقة لم یخلق له عضو وخلقه لایستبین إلا بعد مائة وعشرین یوماً أربعون نطفةً وأربعون علقةً وأربعون مضغةً، کذا في خزانة المفتیین، وهکذا في فتاوی قاضي خان".

(الهندیة، کتاب الکراهیة، الباب الثامن عشر في التداوي والمعالجات وفیه العزل وإسقاط الولد، قدیم زکریا دیوبند ۵/ ۳۵۶، جدید زکریا دیوبند ۵/ ۴۱۱-۴۱۲)

(الموسوعة الفقهیة الکویتیة ۳۰/ ۲۸۵):

"وذهب الحنفیة إلی إباحة إسقاط العلقة حیث أنهم یقولون بإباحة إسقاط الحمل ما لم یتخلق منه شيء ولم یتم التخلق إلا بعد مائة وعشرین یوماً، قال ابن عابدین: وإطلاقهم یفید عدم توقف جواز إسقاطها قبل المدة المذکورة علی إذن الزوج، وکان الفقیه علي بن موسی الحنفي یقول: إنه یکره فإن الماء بعد ما وقع في الرحم مآله الحیاة، فیکون له حکم الحیاة کما في بیضة صید الحرم، قال ابن وهبان: فإباحة الإسقاط محمولة علی حالة العذر أو أنها لاتأثم إثم القتل".

  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206200903

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں