بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بلی پالنے کے بعد کسی عذر کی وجہ سے چھوڑ دینے کا حکم


سوال

میں نے ایک ترکی نسل کی بلی پالی تھی جو ہمیں کسی نے دی تھی، 3-4 سال کا عرصہ وہ ہمارے ساتھ رہی، لیکن گزشتہ سال میری والدہ کی وفات کے بعد وہ گھر میں تنہا ہوتی تھی تو میں اس کو رسی سے باندھ کر جاتا تھا، گھر میں میں اکیلا تھا تو نماز اور معاشی سرگرمی کے لیے باہر رہتا ،اس وقت بلی رسی سے بندھی رہتی، میری تنہائی کو دیکھتے ہوئے رشتہ داروں نے 2-4 ماہ میں میری شادی کروا دی، شادی کے بعد میری بیوی نے کہا وہ بلی کے ساتھ نہیں رہ سکتی؛ کیوں کہ وہ بلیوں سے ڈرتی ہے اور میں جب کام میں جاتا تو بلی کو باندھ کر جاتا، میری بیوی بلی کو دانہ پانی کچھ نہ ڈالتی، یہ دیکھتے ہوئے کہ شادی ہونے کے باوجود بلی کی دیکھ بھال پہلے سے زیادہ مشکل ہو رہی ہے، میں نے بلی کو ان لوگوں کو واپس کر دیا جنہوں نے ہمیں دی تھی، لیکن وہاں ان کے گھر میں بھی بلی بیمار رہی اور وہ گھر سے بھاگنے لگی اور پھر ایک دن وہ بھاگی تو اس کو محلے کے آوارہ کتے پڑ گئے اور اس کو شدید زخمی کر دیا اور وہ مر گئی ، میں اس واقعہ کے بعد بہت زیادہ پریشان ہوں کہ کہیں وہ ان لوگوں کے گھر سے میرے لیے تو نہیں بھاگی تھی؛ کیوں کہ وہ مجھے بہت پیار کرتی تھی اور میری ایک آواز پر بھاگ کر آجاتی تھی ، کیا مجھ پر کوئی گناہ ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر  واقعۃً آپ  نے بلی کو اپنے پاس  پالتے وقت اس کے کھانے پینے کا انتظام کیا تھا ،    آپ نے ذاتی مجبوری کی وجہ سے بلی کو اس کے سابقہ مالکان کو واپس حوالہ کر دیا تھا، پھر ان کے پاس پہنچنے کے بعد بلی بھاگ کر کتے کے کاٹنے پر مرگئی تھی تو ان شاء اللہ آپ پر کوئی گناہ نہیں ہوگا۔

فتح القدیر میں ہے:

"ونفقة المملوك لا تصير دينا فكان إبطالا ، وبخلاف سائر الحيوانات لأنها ليست من أهل الاستحقاق فلا يجبر على نفقتها ، إلا أنه يؤمر به فيما بينه وبين الله تعالى لأنه صلى الله عليه وسلم { نهى عن تعذيب الحيوان } وفيه ذلك ، ونهى عن إضاعة المال وفيه إضاعته .وعن أبي يوسف رحمه الله أنه يجبر ، والأصح ما قلنا.

( قوله بخلاف سائر الحيوانات إلخ ) ظاهر الرواية أنه لا يجبره القاضي على ترك الإنفاق عليها لأن في الإجبار نوع قضاء والقضاء يعتمد المقضي له ويعتمد أهلية الاستحقاق في المقضي له وليس فليس ، لكنه يؤمر به ديانة فيما بينه وبين الله تعالى وتكون آثما معاقبا بحبسها عن البيع مع عدم الإنفاق .وفي الحديث { امرأة دخلت النار في هرة حبستها حتى ماتت ، لا هي أطلقتها تأكل من خشاش الأرض .ولا هي أطعمتها } وذكر المصنف { أنه صلى الله عليه وسلم نهى عن تعذيب الحيوان } : يعني ما تقدم من رواية أبي داود { لا تعذبوا خلق الله } ونهى عن إضاعة المال وهو ما في الصحيحين من أنه صلى الله عليه وسلم { كان ينهى عن إضاعة المال وكثرة السؤال } .وعن هذا ما ذكر أنه يكره في غير الحيوان أن لا ينفق عليها يعني كالأملاك من الدور والزروع فإنه يؤدي إلى ضياع المال .وعن أبي يوسف أنه يجبر في الحيوان وهو قول الشافعي ومالك وأحمد رحمهم الله ، وغاية ما فيه أن يتصور فيه دعوى حسبة فيجبره القاضي على ترك الواجب ولا بدع فيه ، وظاهر المذهب الأول ."

(باب الفقة: ص: 4، ج: 427، ط: دار الفکر)

الدر المختار ميں هے:

"وجاز قتل ما يضر منها ككلب عقور وهرة) تضر (ويذبحها) أي الهرة (ذبحا) ولا يضر بها؛ لأنه لا يفيد، ولا يحرقها وفي المبتغى يكره إحراق جراد وقمل وعقرب، ولا بأس بإحراق حطب فيها نمل وإلقاء القملة ليس بأدب."

(مسائل شتی: ج:6، ص: 752، ط: سعید)

الموسوعۃ الفقہیہ میں ہے:

" يجوز حبس حيوان لنفع ، كحراسة وسماع صوت وزينة ، وعلى حابسه إطعامه وسقيه لحرمة الروح ويقوم مقامه التخلية للحيوانات لترعى وترد الماء إن ألفت ذلك ، فإن لم تألفه فعل بها ما تألفه ، لقول الرسول صلى الله عليه وسلم : عذبت امرأة في هرة سجنتها حتى ماتت فدخلت فيها النار ، لا هي أطعمتها وسقتها إذ حبستها ، ولا هي تركتها تأكل من خشاش الأرض (4) فإن امتنع أجبر على بيعه أو علفه أو ذبح ما يذبح منه . فإن لم يفعل ناب الحاكم عنه في ذلك على ما يراه . وهذا رأي الشافعية والحنابلة ، وهو الرأي الراجح عند الحنفية والمالكية ، وهذه المسألة تجري فيها دعوى الحسبة ."

(إطعام الحیوان المحتبس: ج: 5، ص: 119، ط: دار السلاسل)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144405100566

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں