بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک نماز کے وقت میں دو نمازیں پڑھنا اور اس سلسلے میں وراد احادیث کا جواب


سوال

حضرات مفتیانِ کرام!آپ کے دارالافتاء کا فتویٰ ہے کہ دو نمازوں کو مِلا کر اکھٹا نہیں پڑھا جاسکتا، جب کہ آج کل کچھ نام نہاد اسلامی اسکالر یہ کہتے ہیں کہ دو نمازوں کو بلا عذر ملا کر اکھٹا پڑھ سکتے ہیں اور وہ صحیح مسلم کی حدیث دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔ براہ مہربانی یہ بتادیں کہ کیا صحیح مسلم کی حدیث جسے مذکورہ اسلامی اسکالر زدو نمازوں کو بلا عذر ملا کر اکھٹا پڑھنے کی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں  درست ہے ؟

(2)  کیا بلا عذر دو نمازوں کو جمع کر کے اکھٹا پڑھ سکتے ہیں؟

جواب

نماز کی وقت پر ادائیگی سے متعلق آیات قرآنیہ اور متواتر احادیث کی روشنی میں مفسرین، محدثین، فقہاء وعلماء کرام کا اتفاق ہے کہ فرض نماز کو اس کے متعین اور مقرر وقت پر پڑھنا فرض ہے اور بلا عذر شرعی مقرر وقت سے مقدم وموٴخر کرنا گناہ کبیرہ ہے۔قرآن وحدیث کی روشنی میں امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ  صرف دو جگهوں پر جمع حقیقی كے علاوه هروقتينماز کو اس کے وقت پر ہی ادا کرناچاہیے، یہی شریعت  میں مطلوب ومحمود ہے،ر کوئی شخص سفر یا کسی شرعی عذر کی وجہ سے دو نمازوں کو اکٹھا کرنا چاہے تو اس سلسلہ میں فقہاء وعلماء کرام کا اختلاف ہے۔ فقہاء وعلماء کرام کی ایک جماعت نے سفر یا موسلادھار بارش کی وجہ سے ظہر وعصر میں جمع تقدیم وجمع تاخیر اسی طرح مغرب وعشاء میں جمع تقدیم وجمع تاخیر کی اجازت دی ہے؛ لیکن فقہاء وعلماء کرام کی دوسری جماعت نے احادیث نبویہ کی روشنی میں حقیقی جمع کی اجازت نہیں دی ہے،یہی فقہاۓ احناف کا مذہب ہے،اُن احادیث کو جن میں جمع بین الصلاتین کا ذکر آیا ہے، ظاہری جمع پر محمول کرتی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ظہر کی نماز آخری وقت میں اور عصر کی نماز اوّلِ وقت میں ادا کی جائے، مثلاً ظہر کا وقت ایک بجے سے چار بجے تک ہے اور عصر کا وقت چار بجے سے غروب آفتاب تک تو حاجت کی بناء پر ظہر کو چار بجے سے کچھ قبل اور عصر کو چار بجے پڑھا جائے۔ اس صورت میں ہر نماز اپنے اپنے وقت کے اندر ادا ہوگی؛ لیکن صورت  کے لحاظ سے دونوں نمازیں اکٹھی ادا ہوں گی، اسی طرح مغرب کی نماز آخری وقت میں اور عشاء کی نماز اوّلِ وقت میں پڑھی جائے، اس کو جمع ظاہری یا جمع صوری یا جمع عملی کہا جاتا ہے۔ اس طرح تمام احادیث پر عمل بھی ہوجائے گا اور قرآن وحدیث کا اصل مطلوب ومقصود (یعنی نمازکی وقت پر ادائیگی) بھی ادا ہوجائے گا۔

باقي  صحيح مسلم اور ديگر كتب ميں وراد  احاديث جن میں سفر یا کسی اور عذر کی بنا پر دو نمازوں کو ایک ہی وقت میں جمع کرنے کا ذکر ہے  تو اس کا جواب یہ ہے کہ:
ان روایات میں دو نمازوں کو ایک وقت میں جمع کرنے سےظاہراً وصورتاً جمع کرنا مراد ہے، حقیقتاً نہیں، یعنی عذر کے وقت ظہر کی نماز اتنی دیر سے پڑھی جائے کہ اس کاوقت ختم ہونے لگے، جیسے ہی ظہر کی نماز سے فراغت ہو، کچھ دیر انتظار کیا جائے، پھرجب عصر کا وقت شروع ہوجائے تو عصر بھی پڑھ لی جائے، اسی طرح مغرب اور عشاء میں بھی کیا جا سکتا ہے، اس صورت میں ظہر اپنے وقت میں پڑھی جائے گی اور عصر اپنے وقت میں پڑھی جائےگی، لیکن بظاہر ایسا محسوس ہوگا کہ دونوں ایک ہی ساتھ پڑھی گئیں ہیں،لہذا آپ ﷺ نے دونمازوں کو اسی طرح صورتاًجمع فرمایا تھا حقیقتاً نہیں۔

 چناں چہ  جن صحابہ کرام سے صحیح مسلم اور دیگر کتبِ احادیث میں  وہ احادیث مروی ہیں جن میں  جمع بین الصلاتین کو حقیقی پر محمول کیا جاتا ہے،  خود انہی سے منقول دوسری روایات میں  آپ ﷺکے جمع بین الصلاتین کو جمع صوری بتلایا گیا ہے،چناں بخاری شریف میں ہے:

"عن ‌عبد الله بن عمر رضي الله عنهما قال: «رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌إذا ‌أعجله ‌السير في السفر يؤخر صلاة المغرب، حتى يجمع بينها وبين العشاء قال سالم: وكان عبد الله يفعله ‌إذا ‌أعجله ‌السير ويقيم المغرب فيصليها ثلاثا، ثم يسلم، ثم قلما يلبث حتى يقيم العشاء فيصليها ركعتين، ثم يسلم، ولا يسبح بينها بركعة، ولا بعد العشاء بسجدة، حتى يقوم من جوف الليل»."

(‌‌كتاب الكسوف، ابواب تقصير الصلاة،باب الجمع في السفر بين المغرب والعشاء،46/2، ط:السلطانیة)

"ترجمہ:حضرت عبداللہ بن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو جب جلدی سفر طے کرنا ہوتا تو مغرب کی نماز مؤخر کر دیتے،پھر اسے عشاء کے ساتھ ملا کر پڑھتے تھے۔ سالم نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عمر ؓبھی اگر سفر سرعت کے ساتھ طے کرنا چاہتے تو اسی طرح کرتے تھے، مغرب کی تکبیر پہلے کہی جاتی اور آپ تین رکعت مغرب کی نماز پڑھ کر سلام پھیر دیتے، پھر معمولی سے توقف کے بعد عشاء کی تکبیر کہی جاتی اور آپ اس کی دو رکعتیں پڑھ کر سلام پھیر دیتے، دونوں نمازوں کے درمیان ایک رکعت بھی سنت وغیرہ نہ پڑھتے اور اسی طرح عشاء کے بعد بھی نماز نہیں پڑھتے تھے، یہاں تک کہ درمیان شب میں آپ اٹھتے (اور تہجد ادا کرتے)."

بخاری شریف میں  ہی ہے:

"وقال عبد الله: رأيت النبي النبي صلى الله عليه وسلم إذا أعجله السير يؤخر المغرب فيصليها ثلاثا، ثم يسلم، ‌ثم ‌قلما ‌يلبث ‌حتى ‌يقيم ‌العشاء، فيصليها ركعتين، ثم يسلم، ولا يسبح بعد العشاء، حتى يقوم من جوف الليل."

(‌‌كتاب الكسوف، ابواب تقصير الصلاة، يصلي المغرب ثلاثا في السفر،370/1، ط:دار ابن كثير)

"ترجمہ:حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ کو  جلدی سفر طر کرنا مقصود ہوتا تو مغرب کو اس کے آخری وقت میں لے جاکر تین رکعتیں ادا فرماتے،پھر سلام پھیر کر کچھ دیر ٹھہرتے،یہاں تک کہ عشاء کی نماز کی اقامت ہوتی،پھر آپ (مسافر ہونے کی بناء پر)عشاء کی نماز دو رکعتیں پڑھ کر سلام پھیرتے اور عشاء کے بعد کوئی نماز نہ پڑھتے تا آنکہ درمیانی شب میں اٹھ کر تہجد ادا فرماتے."

مذکورہ بالا دونوں روایات میں صراحت ہے کہ  آپﷺ نمازِ مغرب سے فارغ ہونے کے بعد کچھ دیر ٹھہر جاتے تھے، پھر اس کے بعد عشاء پڑھتے تھے تو آپﷺ کا مغرب پڑھ کر ٹھہرنا صرف اس لیے تھا کہ عشاء کے وقت کے داخل ہونے کا یقین ہوجائے اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بھی اسی طریقے پر دو نمازوں کو جمع فرمایا کرتے تھے۔

بخاری و مسلم میں ہے:

"عن ‌عمرو، عن ‌جابر بن زيد، عن ‌ابن عباس قال: « صليت مع النبي صلى الله عليه وسلم ثمانيا جميعا وسبعا جميعا»، قلت: يا أبا الشعثاء، ‌أظنه ‌أخر ‌الظهر ‌وعجل ‌العصر، وأخر المغرب وعجل العشاء! قال: وأنا أظن ذاك."

(كتاب الصلاة، ‌‌باب جواز الجمع بين الصلاتين في السفر، 152/2، ط:دارالطباعة العامرة)

"ترجمہ: عمرو بن دینار رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ انہیں جابر بن زید نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ کے حوالے سے یہ بات بیان کی کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ نے فرمایا: میں نے مدینے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہر اور عصر کی نماز اور مغرب اور عشاء کی نماز جمع کرکے پڑھی،عمرو بن دینار رحہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے ابو شعثاء(یعنی جابر بن زید) سے کہا کہ حضور علیہ السلام نے جو جمع کیا ہے اس سے میرے خیال میں جمع صوری ہی مراد ہے، نہ کہ حقیقی، تو حضرت جابن بن زید نے بھی تائید کرتے ہوۓ کہا کہ میرا خیال بھی یہی ہے."

صحیح مسلم میں ہے:

"عن ‌أنس عن النبي صلى الله عليه وسلم « ‌إذا ‌عجل ‌عليه ‌السفر ‌يؤخر ‌الظهر إلى أول وقت العصر فيجمع بينهما، ويؤخر المغرب حتى يجمع بينها وبين العشاء حين يغيب الشفق »."

(كتاب الصلاة، ‌‌باب جواز الجمع بين الصلاتين في السفر، 151/2، ط:دارالطباعة العامرة)

حضرت انس  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ کو جب جلدی سفر طے کرنا مقصود ہوتا  تو ظہر کو  عصر کے ابتدائی وقت تک مؤخرفرماکر  دونوں نمازوں کو جمع فرماتے، اور مغرب کو  شفق غروب ہونے تک مؤخر فرماکر ،مغرب اور عشاء کو جمع  فرماتے ۔

سننِ نسائی میں ہے:

"عن ‌عبد الله قال: «ما رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌صلى ‌صلاة ‌قط إلا لميقاتها، إلا صلاة المغرب والعشاء صلاهما بجمع، وصلاة الفجر يومئذ قبل ميقاتها»."

(كتاب مناسك الحج، الوقت الذي يصلي فيه الصبح بالمزدلفة، 262/5، ط:المكتبة التجارية الكبرى)

ترجمہ:"عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ دو نمازوں کے سوا میں نے نبی کریم ﷺ کو اور کوئی نماز بغیر وقت نہیں پڑھتے دیکھا، آپ ﷺ نے (مزدلفہ میں) مغرب اور عشاء ایک ساتھ پڑھیں اور فجر کی نماز بھی اس دن (مزدلفہ میں) معمول کے وقت سے پہلے ادا کی."

اس روایت میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا صریح ارشاد موجود ہےکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدلفہ کے علاوہ کبھی کسی جگہ،کسی وقت دو نمازوں کو ایک وقت میں جمع کرکے نہیں پڑھا۔

ان تمام  روایات سے پتا چلتا ہے کہ آپ ﷺ کا دونمازوں کو جمع فرمانا صورتاً تھا،حقیقتاً نہیں، چنانچہ اگر ان روایات کو جمع صوری پر محمول کیا جاےتو تمام آیات اور روایات میں کوئی تعارض نہیں رہتا اور اگر حقیقی پر محمول کیا جاۓ  تو پھر آیاتِ مبارکہ اور احادیث مبارکہ میں تعارض لازم آتا ہے، اس لیے اس کو جمع صوری پر محمول کیا جائے گا، تاکہ قرآن اور حدیث پر مکمل طور پر عمل ہو اور ان میں باہم تضاد اور ٹکراؤ نہ ہو۔

(2) واضح رہے کہ حج کے موقع پر عرفات میں ظہر کے وقت میں ، ظہر  و عصر کو اور  مزدلفہ میں عشاء کے وقت میں مغرب و عشاء کو ایک ساتھ ایک ہی وقت میں پڑھنا  احادیثِ متواترہ اور اجماعِ امت کی بناء پرتو جائز ہے،لیکن اس کے علاوہ سفر ہو یا حضر ،عذر ہو یا نہ ہو، دو نمازوں کو ایک وقت میں پڑھنا  جائز نہیں ہے، دو نمازیں ایک وقت میں پڑھنے کی صورت میں اگر کوئی نماز اپنے وقت سے پہلے پڑھ لی گئی تو وہ نماز ہی نہیں ہوگی، اور اگر کسی نماز کو اس کے وقت کے بعد پڑھا تو نماز تو بطورِ قضا ہو جائے گی، لیکن نماز کو اپنے وقت سے مؤخر کر کے پڑھنا حرام اور کبیرہ گناہ ہے، اگر کوئی  شرعی عذر ہو، مثلاً سفر میں  بار بار نماز کے لیے رکنے میں  دشواری کا سبب ہو تو دو نمازیں ظاہری طور پر جمع کرکے ادا کرلی جائیں یعنی ایک نماز کو اس کے آخری وقت میں اور دوسری نماز کو اس کے ابتدائی  وقت میں ادا کرلیا جائے۔

فتاوی شامی میں ہے:

'' (ولا جمع بين فرضين في وقت بعذر) سفر ومطر خلافاً للشافعي، وما رواه محمول على الجمع فعلاً لا وقتاً (فإن جمع فسد لو قدم) الفرض على وقته (وحرم لو عكس) أي أخره عنه (وإن صح) بطريق القضاء (إلا لحاج بعرفة ومزدلفة).

 (قوله: وما رواه) أي من الأحاديث الدالة على التأخير كحديث أنس «أنه صلى الله عليه وسلم كان إذا عجل السير يؤخر الظهر إلى وقت العصر فيجمع بينهما، ويؤخر المغرب حتى يجمع بينها وبين العشاء»۔ وعن ابن مسعود مثله."

وفیہ ایضاً:

''ومن الأحاديث الدالة على التقديم وليس فيها صريح سوى حديث أبي الطفيل عن معاذ «أنه عليه الصلاة والسلام كان في غزوة تبوك إذا ارتحل قبل زيغ الشمس أخر الظهر إلى العصر فيصليهما جميعاً، وإذا ارتحل قبل زيغ الشمس صلى الظهر والعصر ثم سار، وكان إذا ارتحل قبل المغرب أخر المغرب حتى يصليها مع العشاء، وإذا ارتحل بعد المغرب عجل العشاء فصلاها مع المغرب» .

(قوله: محمول إلخ) أي ما رواه مما يدل على التأخير محمول على الجمع فعلاً لا وقتاً: أي فعل الأولى في آخر وقتها والثانية في أول وقتها، ويحمل تصريح الراوي بخروج وقت الأولى على التجوز كقوله تعالى :﴿ فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ ﴾ [البقرة: 234] أي قاربن بلوغ الأجل أو على أنه ظن، ويدل على هذا التأويل ما صح عن ابن عمر: « أنه نزل في آخر الشفق فصلى المغرب ثم أقام العشاء وقد توارى الشفق، ثم قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا عجل به السير صنع هكذا.» " وفي رواية ": ثم انتظر حتى غاب الشفق وصلى العشاء "، كيف وقد قال صلى الله عليه وسلم: «ليس في النوم تفريط، إنما التفريط في اليقظة، بأن تؤخر صلاة إلى وقت الأخرى». رواه مسلم، وهذا قاله وهو في السفر. وروى مسلم أيضاً عن ابن عباس «أنه صلى الله عليه وسلم جمع بين الظهر والعصر والمغرب والعشاء بالمدينة من غير خوف ولا مطر، لئلا تحرج أمته». وفي رواية: «ولا سفر». والشافعي لا يرى الجمع بلا عذر، فما كان جوابه عن هذا الحديث فهو جوابنا. وأما حديث أبي الطفيل الدال على التقديم فقال الترمذي فيه: إنه غريب، وقال الحاكم: إنه موضوع، وقال أبو داود: ليس في تقديم الوقت حديث قائم، وقد أنكرت عائشة على من يقول بالجمع في وقت واحد. وفي الصحيحين عن ابن مسعود : « والذي لا إله غيره ما صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة قط إلا لوقتها إلا صلاتين جمع بين الظهر والعصر بعرفة، وبين المغرب والعشاء بجمع». " ويكفي في ذلك النصوص الواردة بتعيين الأوقات من الآيات والأخبار، وتمام ذلك في المطولات، كالزيلعي وشرح المنية. وقال سلطان العارفين سيدي محيي الدين نفعنا الله به: والذي أذهب إليه أنه لا يجوز الجمع في غير عرفة ومزدلفة؛ لأن أوقات الصلاة قد ثبتت بلا خلاف، ولا يجوز إخراج صلاة عن وقتها إلا بنص غير محتمل؛ إذ لاينبغي أن يخرج عن أمر ثابت بأمر محتمل، هذا لا يقول به من شم رائحة العلم، وكل حديث ورد في ذلك فمحتمل أنه يتكلم فيه مع احتمال أنه صحيح، لكنه ليس بنص اهـكذا نقله عنه سيدي عبد الوهاب الشعراني في كتابه الكبريت الأحمر في بيان علوم الشيخ الأكبر."

(كتاب الصلاة، 381،382/1، ط:سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144503100214

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں