بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بہنوں کا حق غصب کرنا


سوال

3 بھائیوں نے 5 بہنوں کو میراث میں ان کا حق نہیں دیا ہے، اس بارے میں شریعت کا حکم کیا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ والدین کے انتقال کےبعد ان کے ترکے میں جس طرح ان کی نرینہ اولاد کا حق و حصہ ہوتا ہے اسی طرح بیٹیوں کا بھی اس میں شرعی حق و حصہ ہوتا ہے، والدین کے انتقال کے بعد ان کے ترکے پر بیٹوں کا  خود  تنِ تنہا قبضہ کرلینا اور بہنوں کو  ان کے شرعی حصے سے محروم کرنا ناجائز اور سخت گناہ ہے، بھائیوں  پر لازم ہے  کہ بہنوں کو ان کا حق و حصہ  اس دنیا میں دے دیں ورنہ آخرت میں دینا پڑے گا اور آخرت میں دینا آسان نہیں ہوگا، اور جب تک بھائی بہنوں کو ان کا حق نہیں دیں گے اس وقت تک یہ حق ان کے ذمہ لازم رہے گا۔

کسی کا حق دبانے یا غصب کرنے پر احادیثِ مبارکہ میں  بڑی وعیدیں آئی ہیں، چنانچہ  حضرت سعید  بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

"جو شخص( کسی کی ) بالشت بھر زمین  بھی  از راہِ ظلم لے گا، قیامت کے دن ساتوں زمینوں میں سے اتنی ہی  زمین اس کے گلے میں   طوق  کے طور پرڈالی  جائے گی"۔

 ایک اور حدیث میں ہے:

"حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے وارث کی  میراث کاٹے گا،(یعنی اس کا حصہ نہیں دے گا) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جنت کی میراث کاٹ لے گا۔"

نیز  یہ بھی یاد رہے کہ اگر بھائی بہنوں سے جائیداد کی تقسیم سے قبل دست بردار ہونے کا کہیں تو یہ بھی درست نہیں ہے،تقسیمِ جائے داد سے پہلے کسی وارث کا اپنے شرعی حصہ سے بلا عوض دست بردار ہوجانا شرعاً معتبر نہیں ہے،  البتہ ترکہ تقسیم ہوجائے، ہر ایک وارث اپنے حصے پر قبضہ کرنے  کے بعد اپنا حصہ خوشی سے  جس کو دینا چاہے دے سکے گا۔ لیکن اگر بھائیوں کے یا خاندانی  یا معاشرتی دباؤ کی وجہ سے بہنوں سے ان کا حصہ معاف کرالیا جائے تو  بھائیوں کے لیے وہ حلال نہیں ہوگا۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

عن سعيد بن زيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أخذ شبراً من الأرض ظلماً؛ فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين». (مشكاة المصابيح، 1/254، باب الغصب والعاریة، ط: قدیمی)

وفیه أیضاً: 

وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة» . رواه ابن ماجه.

(1/266، باب الوصایا، الفصل الثالث،  ط: قدیمی)

تکملۃ رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:

 الإرث جبري لَايسْقط بالإسقاط. 

(ج؛7/ص؛505 / کتاب الدعوی، ط :سعید)

الأشباہ والنظائر لابن نجیم  میں ہے:

   "لَوْ قَالَ الْوَارِثُ: تَرَكْتُ حَقِّي لَمْ يَبْطُلْ حَقُّهُ؛ إذْ الْمِلْكُ لَا يَبْطُلُ بِالتَّرْك".

 (ص؛309/ما یقبل الاسقاط من الحقوق وما لا یقبلہ/ط:قدیمی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144112201417

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں