بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بھائی کی بیٹی کی ولدیت میں اپنا نام لکھنا


سوال

اگر کسی نے بھائی کی بیٹی گود لی ہو تو نکاح کے وقت گود لینے والے بھائی کا نام حقیقی والد کی جگہ لکھا اور پکارا جا سکتا ہے؟

جواب

 شریعتِ مطہرہ میں لے پالک اور منہ بولے بیٹے کی حیثیت حقیقی اولاد  کی طرح نہیں ہے،  اور کسی کو منہ بولا بیٹا بنانے سے  وہ حقیقی بیٹا نہیں بن جاتا اور نہ ہی اس پر حقیقی اولاد والے احکام جاری ہوتے ہیں،  البتہ گود میں لینے والے کو  بچے کی  پرورش، تعلیم وتربیت  اور اسے ادب واخلاق سکھانے کا ثواب ملتا ہے،  جاہلیت کے زمانہ  میں یہ دستور تھا کہ لوگ لے پالک اور منہ بولے اولاد کو حقیقی اولاد کا درجہ دیتے تھے ، لیکن اسلام نے اس تصور ورواج کو ختم کرکے یہ اعلان کردیا کہ منہ بولی اولاد حقیقی اولاد نہیں ہوسکتی۔ اور لے پالک اور منہ بولی اولاد کو ان کے اصل والد کی طرف منسوب کرنا ضروری ہے۔  جب رسولﷺ نے زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا ”متبنیٰ“ (منہ بولا بیٹا)   بنایا اور لوگ ان کو ”زید بن محمد“ پکارنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں:

{وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ذَلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْوَاهِكُمْ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ  ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا اٰبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُمْ بِهِ وَلَكِنْ مَا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا }   [الأحزاب: 4، 5]

ترجمہ: اور تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا (سچ مچ کا) بیٹا نہیں بنادیا یہ صرف تمہارے منہ سے کہنے کی بات ہے اور اللہ حق بات فرماتا ہے اور وہی سیدھا راستہ بتلاتا ہے ، تم ان کو ان کے باپوں کی طرف منسوب کیا کرو یہ اللہ کے نزدیک راستی کی بات ہے اور اگر تم ان کے باپوں کو نہ جانتے ہو تو وہ تمہارے دین کے بھائی ہیں اور تمہارے دوست ہیں اور تم کو اس میں جو بھول چوک ہوجاوے تو اس سے تم پر کچھ گناہ نہ ہوگا، لیکن ہاں دل سے ارادہ کر کے کرو (تو اس پر مؤاخذہ ہوگا)، اور اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے۔ (از بیان القرآن)

اس آیت کے نازل ہونے کے بعد صحابہ کرام حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ کو ان کے والد کی طرف منسوب کرکے ”زید بن حارثہ“  کے نام سے پکارنے لگے۔

  اس سے معلوم ہوا کہ بچے گود لینے سے حقیقی بیٹایا بیٹی نہیں بنتے، نہ ہی ان پرحقیقی بچوں والے احکامات جاری ہوتے ہیں، البتہ   اگر کوئی شخص کسی  بچے کو  لے کر اس  غرض سے اپنے پاس رکھے کہ میں اس کی تربیت  وپروش کروں گا، اور اسے بیٹے کی طرح رکھوں گا، اوراس کے اخراجات ومصارف  اٹھاؤں گا، اور اس کے حقیقی والد سے اس کی نسبت منقطع نہ کرے   تو یہ جائز ہے۔

لہذا کسی کے لیے اپنے بھائی کی بیٹی کو گود لینا اور اس کی پرورش کرنا جائز ہے، لیکن چوں کہ وہ حقیقی اولاد نہیں ہوگی،  اس لیے اس کو اس کے حقیقی والد کے نام ہی کے ساتھ پکارا جائے، سرکاری دستاویزات، نکاح کے وقت اور تعلیمی ریکارڈ میں بھی اس کے حقیقی والد کا نام درج کرایا جائے ، ہاں بطور سرپرست کے  اپنا نام درج کراسکتے ہیں۔ نکاح کے وقت اگر حقیقی والد کے بجائے پالنے والے شخص (چچا) کا نام بطورِ ولدیت پکارا گیا اور لڑکی خود مجلسِ عقد میں موجود نہ ہوئی تو نکاح منعقد نہیں ہوگا۔

نیز واضح رہے کہ مذکورہ بچی اپنے حقیقی والد کی تو وارث بنے گی، لیکن چچا  کے اس کو گود لینے سے چچا کے ترکہ میں اس کا  اولاد ہونے کی حیثیت سے حق وحصہ نہیں ہوتا۔ ہاں اپنی زندگی میں بطورِ گفٹ اسے کوئی چیز دی جاسکتی ہے اور اسی طرح  اگر وہ بچی آپ کی شرعی وارث نہ بن رہی  ہو تو اس کے حق میں ایک تہائی ترکہ تک کی وصیت کی جاسکتی ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206200504

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں