بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بغیر احرام کے مکہ آجانے کے بعد دوبارہ میقات پر جاکر احرام باندھنے کا حکم


سوال

میں اور میری بیوی عمرہ کرنے کے لیے پاکستان سے مدینہ آئے اور وہاں ایک ہفتہ رُکے، پھر عمرہ کرنے کے لیے مکہ روانہ ہوئے، راستے میں احرام باندھنے کے لیے ذوالحلیفہ میقات پر رُکے، مگر ہمارا احرام بیگ میں تھا اور بیگ بس کی ڈکی میں تھا، اور ڈرائیور کو ہم نے بہت کہا لیکن اس نے ہمیں بیگ نہیں دیا اور اس طرح ہم بغیر احرام کے مکہ آ گئے، پھر ہم نے اگلے دن طائف کے میقات قرن المنازل سے احرام باندھا، جو کہ مکہ سے 80 کیلو میٹر دور ہے اور پھر ہم نے عمرہ کیا۔

اب کیا ہم پر بغیر احرام حدودِ حرم میں داخل ہونے سے دم لازم ہو گا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل اور اس کی بیوی مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ عمرہ کرنے کے لیے جارہے تھے، اور انہوں نے ذوالحلیفہ پر احرام نہیں باندھا، یعنی عمرہ کی نیت نہیں کی بلکہ بغیر احرام ہی مکہ میں داخل ہوگئے، لیکن پھر اگلے دن قرن المنازل پر جا کر احرام باندھ لیا تو اس سے ان دونوں پر کوئی دم لازم نہیں آئے گا، البتہ پہلے بغیر احرام کے میقات سے تجاوز کرنے پر توبہ و استغفار کرنا ضروری ہے۔

فتاویٰ محمودیہ میں ہے:

’’جو آفاقی مکہ یا حرم کا ارادہ رکھتا ہے اس کے لیے میقات سے بغیر احرام کے گزرنا جائز نہیں، خواہ اس کا حج یا  عمرہ کا ارادہ ہو، خواہ سیر، تجارت وغیرہ کا رادہ ہو، اگر گزر جائے تو اس کے ذمہ لازم ہے کہ کسی میقات پر جا کر احرام باندھے، ورنہ اس پر دم واجب ہوگا۔‘‘

(کتاب الحج، باب المواقیت، ج: 10، ص: 381، ط: ادارۃ الفاروق کراچی)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وحرم تأخير الإحرام عنها) كلها (لمن) أي لآفاقي (قصد دخول مكة) يعني الحرم (ولو لحاجة) غير الحج.

وفي حاشيته: (قوله وحرم إلخ) فعليه العود إلى ميقات منها وإن لم يكن ميقاته ليحرم منه، وإلا فعليه دم."

(كتاب الحج، مطلب في المواقيت، ج: 2، ص: 477، ط: دار الفكر بيروت)

فتاویٰ تاتارخانیہ میں ہے:

"فإن أحرم بالحج أو العمرة من غير أن يرجع إلى الميقات، فعليه دم لترك حق الميقات."

(باب ما يلزم لمجاوزة الميقات بغير الإحرام، ج: 2، ص: 475، ط: إدارة القرآن كراتشي)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"ومن جاوز الميقات وهو يريد الحج والعمرة غير محرم فلا يخلو إما أن يكون أحرم داخل الميقات أو عاد إلى الميقات ثم أحرم فإن أحرم داخل الميقات ينظر إن خاف فوت الحج متى عاد فإنه لا يعود ويمضي في إحرامه ولزمه دم، وإن كان لا يخاف فوات الحج فإنه يعود إلى الوقت وإذا عاد إلى الوقت فلا يخلو إما أن يكون حلالا أو محرما فإن عاد حلالا ثم أحرم؛ سقط عنه الدم وإن عاد إلى الوقت محرما قال أبو حنيفة - رحمه الله تعالى -: إن لبى سقط عنه الدم وإن لم يلب لا يسقط وعندهما يسقط في الوجهين ومن جاوز وقته غير محرم ثم أتى وقتا آخر أقرب منه وأحرم؛ جاز ولا شيء عليه، ولو جاوز الميقات ويريد بستان بني عامر دون مكة؛ فلا شيء عليه."

(كتاب المناسك، الباب العاشر في مجاوزة الميقات بغير إحرام، ج: 1، ص: 253، ط: دار الفكر بيروت)

غنیۃ الناسک میں  ہے:

"آفاقي مسلم مکلف أراد دخول مکة أو الحرم  ولولتجارة أو سیاحة وجاوز آخر مواقیته غیر محرم ثم أحرم أولم یحرم أثم ولزمه دم وعلیه العود إلی میقاته الذي جاوزه أو إلی غیره أقرب أو أبعد ، وإلی میقاته الذي جاوزه أفضل، وعن أبي یوسف: إن کان الذي یرجع إلیه محاذیاً لمیقاته الذي جاوزه أو أبعد منه سقط الدم  وإلا فلا، فإن لم یعد ولا عذر له أثم؛ لترکه العود الواجب."

 (باب مجاوزة المیقات بغیر إحرام، ص: 60، ط: إدارة القرآن)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144402100817

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں