بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوہ کے دودھ پلانے سے حرمت متوفی سے ثابت ہوگی یا نہیں؟


سوال

۱) اگر بیوہ عورت کسی بچے کو دودھ پلائے تو اس بچے کی رضاعت بیوہ کے فوت شدہ شوہر سے ثابت ہوگی یا نہیں ؟

۲)  مذکورہ مسئلہ میں شوہر کے وفات کے بعد کم عرصہ گزرا ہو یا زیادہ اس میں کچھ فرق ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو کتنے عرصہ تک بیوہ کے دودھ شوہر کی طرف منسوب کریں گے؟

جواب

۱،۲) واضح رہے کہ فقہی جزئیات سے یہ مندرجہ ذیل امور ثابت ہوتے ہیں:

الف)  مرضعہ کا دودھ جس مرد کے سبب ہوگا ، اس مرد سے رضیع کی حرمت رضاعت ثابت ہوجائے گی۔

ب)  طلاق یا وفات کے بعد بھی اگر مرضعہ  دودھ پلائے گی اور وہ دودھ طلاق دینے والے مرد یا وفات پانے والے مرد کے سبب ہوگا تب بھی اس مرد سے حرمت ثابت ہوگی۔

ج)  دودھ والی عورت اگر طلاق اور عدت  کے بعد دوسری جگہ نکاح کر لیتی ہے اور اسی حال میں حاملہ بھی ہوجاتی ہے تب بھی اگر کسی بچہ کو دودھ پلائے گہ تو حرمت پہلے شوہر سے ہی ثابت ہوگی کیونکہ دودھ کا پہلے شوہرسے ہونا یقینی ہے اور دوسرے شوہر سے ہونا یقینی نہیں ہے، ہاں جب دوسرے سے بچہ پیدا ہوجائے تو پھر حرمت دوسرے شوہر سے ثابت ہوگی۔ یہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی رائے ہے۔

د) کسی شخص کے نکاح میں عورت کو بچہ ہوا اور پھر دودھ آیا اور پھر دودھ ختم ہوگیا، اس کے بعد بغیر کسی حمل کے دودھ آیا (یعنی اس دودھ کا سبب شوہر نہیں تھا )  تو پھر اب دودھ پلانے کی صورت میں شوہر سے حرمت ثابت نہیں ہوگی۔

ہ)  غیر شادی شدہ بالغہ عورت کو دودھ آیا تو اس صورت میں صرف عورت سے حرمت ثابت ہوگی، کسی مرد سے ثابت نہیں ہوگی۔اسی طرح شادی شدہ عورت کو دودھ آئے لیکن اس عورت کا اپنےشوہر سے کوئی بچہ نہ ہو اور اس عورت کو دودھ آجائے تو حرمت شوہر سے ثابت نہیں ہوگی، بلکہ یہ دودھ گویا کہ باکرہ کا دودھ کے حکم میں ہوگا۔

ان تمام متعلقہ جزئیات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مرد سے حرمت ثابت ہونے کا اصل مدار اس بات پر ہے کہ دودھ کا سبب مرد ہے یا نہیں ہے؟ لہذا صورت مسئولہ میں بیوہ عورت عدت کے دوران یا عدت کے بعد اگر کسی کو دودھ پلائے گی اور یہ دودھ فوت شدہ شوہر کے سبب ہے تو پھر فوت ہونے والے شوہر سے حرمت ثابت ہوگی چاہے وفات کو کتنا ہی عرصہ گزرجائے۔ اگر دودھ فوت ہونے والے شوہر سے نہیں ہے بلکہ کسی اور وجہ سے ہے تو پھر حرمت شوہر سے ثابت نہ ہوگی چاہے شوہر کی وفات کو کتنا ہی قلیل عرصہ گزرا ہو۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"(طلق ذات لبن فاعتدت وتزوجت) بآخر (فحبلت وأرضعت) (فحكمه من الأول) لأنه منه بيقين فلا يزول بالشك (حتى تلد) فيكون اللبن من الثاني، والوطء بشبهة كالحلال، قيل: وكذا الزنا والأوجه لا فتح

(قوله طلق ذات لبن) أي منه، بأن ولدت منه؛ لأنه لو تزوج امرأة ولم تلد منه قط ونزل لها لبن وأرضعت ولدا لا يكون الزوج أبا للولد لأن نسبته إليه بسبب الولادة منه، وإذا انتفت انتفت النسبة فكان كلبن البكر،ولهذا لو ولدت للزوج فنزل لها لبن فأرضعت به ثم جف لبنها ثم در فأرضعته صبية فإن لابن زوج المرضعة التزوج بهذه الصبية، ولو كان صبيا كان له التزوج بأولاد هذا الرجل من غير المرضعة بحر عن الخانية."

(کتاب النکاح، باب الرضاع، ج نمبر ۳، ص نمبر ۲۲۱، ایچ ایم سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"إذا طلق الرجل امرأته ولها لبن فتزوجت بزوج آخر بعد ما انقضت عدتها ووطئها الثاني أجمعوا أنها إذا ولدت من الثاني فاللبن من الثاني وينقطع من الأول وأجمعوا على أنها إذا لم تحبل من الثاني فاللبن من الأول وإذا حبلت من الثاني ولكن لم تلد منه، قال أبو حنيفة - رحمه الله تعالى -: اللبن يكون من الأول حتى تلد من الثاني كذا في المحيط.

رجل تزوج امرأة ولم تلد منه قط ثم نزل لها لبن فأرضعت صبيا كان الرضاع من المرأة دون زوجها حتى لا يحرم على الصبي أولاد هذا الرجل من غير هذه المرأة."

(کتاب الرضاع، ج نمبر ۱،ص نمبر ۳۴۳، دار الفکر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"رجل تزوج امرأة فولدت منه ولدا فأرضعت ولدها ثم يبس لبنها ثم در لها لبن بعد ذلك فأرضعت صبيا كان لهذا الصبي أن يتزوج أولاد هذا الرجل من غير المرضعة كذا في فتاوى قاضي خان."

(کتاب الرضاع، ج نمبر ۱، ص نمبر ۳۴۴، دار الفکر)

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"(قال:) وإذا كان للمرأة لبن وطلقها زوجها وتزوجت آخر فحبلت من الآخر ونزل لها اللبن فاللبن من الأول حتى تلد في قول أبي حنيفة - رحمه الله تعالى -، فإذا ولدت فاللبن بعد ذلك يكون من الثاني.... وأبو حنيفة - رحمه الله تعالى - يقول:كون اللبن من الأول ثابت بيقين، واللبن يزداد تارة وينقص أخرى باعتبار الغذاء، فهذه الزيادة تحتمل أن تكون من قوة الغذاء لا من الحبل الثاني، فلا ينتسخ به حكم اللبن من الأول حتى يتعرض مثل ذلك السبب من الثاني، وذلك يكون بالولادة. (قال:) ولا يجتمع حكم الرضاع لرجلين على امرأة واحدة في حالة واحدة؛ لأن سببهما لا يجتمع حلالا شرعا فكذلك ما ينبني على ذلك السبب، ولكن ما بقي الأول لا يثبت الثاني وإذا ثبت الثاني انتفى الأول"

 (کتابالنکاح ، باب الرضاع، ج نمبر ۵، ص نمبر ۱۳۳،دار المعرفۃ)

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"(قال:) وإذا ولدت المرأة من الرجل ثم طلقها وتزوجت بزوج آخر وأرضعت بلبن الأول ولدا وهي تحت الزوج الثاني فالرضاع من الزوج الأول دون الثاني؛ لأن المعتبر من كان نزول اللبن منه لا من هي تحته، ونزول هذا اللبن كان من الأول."

 (کتابالنکاح ، باب الرضاع، ج نمبر ۵، ص نمبر ۱۳۷،دار المعرفۃ)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما قولهم: إن الله تعالى بين الحرمة في جانب المرضعة لا في جانب زوجها فنقول: إن لم يبينها نصا فقد بينها دلالة؛ وهذا لأن البيان من الله تعالى بطريقين: بيان إحاطة وبيان كفاية، فبين في النسب بيان إحاطة وبين في الرضاع بيان كفاية تسليطا للمجتهدين على الاجتهاد والاستدلال بالمنصوص عليه على غيره وهو أن الحرمة في جانب المرضعة لمكان اللبن وسبب حصول اللبن ونزوله هو ماؤهما جميعا؛ فكان الرضاع منهما جميعا وهذا؛ لأن اللبن إنما يوجب الحرمة لأجل الجزئية والبعضية؛ لأنه ينبت اللحم وينشر العظم على ما نطق به الحديث، ولما كان سبب حصول اللبن ونزوله ماءهما جميعا، وبارتضاع اللبن تثبت الجزئية بواسطة نبات اللحم؛ يقام سبب الجزئية مقام حقيقة الجزئية في باب الحرمات احتياطا والسبب يقام مقام المسبب خصوصا في باب الحرمات أيضا."

(کتاب الرضاع، فصل فی المحرمات بالرضاع، ج نمبر ۴، ص نمبر ۳،دار الکتب العلمیۃ) 

بدائع الصنائع میں ہے:

"ولو طلق الرجل امرأته ولها لبن من ولد كانت ولدته منه فانقضت عدتها وتزوجت بزوج آخر وهي كذلك فأرضعت صبيا عند الثاني ينظر إن أرضعت قبل أن تحمل من الثاني فالرضاع من الأول بالإجماع؛ لأن اللبن نزل من الأولفلا يرتفع حكمه بارتفاع النكاح كما لا يرتفع بالموت وكما لو حلب منها اللبن ثم ماتت لا يبطل حكم الرضاع من لبنها كذا هذا، وإن أرضعت بعدما وضعت من الثاني فالرضاع من الثاني بالإجماع؛ لأن اللبن منه ظاهرا، وإن أرضعت بعدما حملت من الثاني قبل أن تضع؛ فالرضاع من الأول إلى أن تضع، في قول أبي حنيفة .....ولأبي حنيفة أن نزول اللبن من الأول ثبت بيقين؛ لأن الولادة سبب لنزول اللبن بيقين عادة فكان حكم الأول ثابتا بيقين فلا يبطل حكمه ما لم يوجد سبب آخر مثله بيقين وهو ولادة أخرى لا الحمل؛ لأن الحامل قد ينزل لها لبن بسبب الحمل وقد لا ينزل حتى تضع والثابت بيقين لا يزول بالشك."

(کتاب الرضاع، فصل فی صفۃ الرضاع المحرم، ج نمبر ۴، ص نمبر ۱۰،دار الکتب العلمیۃ) 

فتح القدیر میں ہے:

"بخلاف ما لو ولدت للزوج فنزل لها لبن فأرضعت به ثم جف لبنها ثم در لها فأرضعت به صبية، فإن لولد زوج المرضعة من غيرها التزوج بهذه الصبية؛ لأن هذا ليس لبن الفحل ليكون هو أباها، كما لو لم تلد من الزوج أصلا ونزل لها لبن فإنه لا يثبت بإرضاعها تحريم بين ابن زوجها ومن أرضعته؛ لأنها ليست بنته؛ لأن نسبته إليه بسبب الولادة منه،فإذا انتفت انتفت النسبة فكان كلبن البكر."

(کتاب الرضاع، ج نمبر ۳، ص نمبر ۴۴۹، شركة مكتبة ومطبعة مصفى البابي الحلبي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507102074

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں