بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کی بیماری میں شوہر کی تسکین کے لیے تدبیر کرنا


سوال

میری اہلیہ ماشاء اللہ پریگننٹ ہے، اس کو ڈاکٹر نے فل بیڈ ریسٹ دیا ہوا ہے، یہ صرف لیٹی رہتی ہے، کھانا کھانے اور باتھ روم جانے کے لیے اٹھتی ہے، دو مہینے ہو گئے ہیں،  مجھ سے شہوت دو دن برداشت نہیں ہوتی، میں بہت پریشان ہوں، کہیں مجھ سے کوئی گناہ نہ ہو جائے تو مجھے بتائیں میں کیا کروں؟ میری شہوت بھی پوری ہوجائے اور گناہ بھی نہ ہو؟

جواب

حمل کے دوران بیوی سے صحبت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، البتہ اگر آپ طبی احتیاط کے طور پر ڈاکٹروں کے منع کرنے کی وجہ سے اپنی بیوی سے ہم بستری نہیں کرسکتے تو ایسی صورت میں اگر بیوی ضرورۃً آپ کی تسکین کے لیے ہاتھ وغیرہ سے کوئی تدبیر کرتی ہے یا  آپ اس کے جسم کے دیگر ظاہری اعضاء  سے تسکین حاصل کرلیتے ہیں تو اس کی گنجائش ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 399):

"مطلب في حكم الاستمناء بالكف (قوله: وكذا الاستمناء بالكف) أي في كونه لا يفسد لكن هذا إذا لم ينزل أما إذا أنزل فعليه القضاء كما سيصرح به وهو المختار كما يأتي لكن المتبادر من كلامه الإنزال بقرينة ما بعده فيكون على خلاف المختار (قوله: ولو خاف الزنى إلخ) الظاهر أنه غير قيد بل لو تعين الخلاص من الزنى به وجب؛ لأنه أخف وعبارة الفتح فإن غلبته الشهوة ففعل إرادة تسكينها به فالرجاء أن لا يعاقب اهـ زاد في معراج الدراية وعن أحمد والشافعي في القديم الترخص فيه وفي الجديد يحرم ويجوز أن يستمني بيد زوجته وخادمته اهـ وسيذكر الشارح في الحدود عن الجوهرة أنه يكره ولعل المراد به كراهة التنزيه فلا ينافي قول المعراج يجوز تأمل وفي السراج إن أراد بذلك تسكين الشهوة المفرطة الشاغلة للقلب وكان عزباً لا زوجة له ولا أمة أو كان إلا أنه لايقدر على الوصول إليها لعذر قال أبو الليث: أرجو أن لا وبال عليه وأما إذا فعله لاستجلاب الشهوة فهو آثم اهـ.
بقي هنا شيء وهو أن علة الإثم هل هي كون ذلك استمتاعاً بالجزء كما يفيده الحديث وتقييدهم كونه بالكف ويلحق به ما لو أدخل ذكره بين فخذيه مثلاً حتى أمنى، أم هي سفح الماء وتهييج الشهوة في غير محلها بغير عذر كما يفيده قوله: وأما إذا فعله لاستجلاب الشهوة إلخ؟ لم أر من صرح بشيء من ذلك والظاهر الأخير؛ لأن فعله بيد زوجته ونحوها فيه سفح الماء لكن بالاستمتاع بجزء مباح كما لو أنزل بتفخيذ أو تبطين بخلاف ما إذا كان بكفه ونحوه وعلى هذا فلو أدخل ذكره في حائط أو نحوه حتى أمنى أو استمنى بكفه بحائل يمنع الحرارة يأثم أيضاً ويدل أيضاً على ما قلنا ما في الزيلعي حيث استدل على عدم حله بالكف بقوله تعالى: {والذين هم لفروجهم حافظون} [المؤمنون: 5] الآية وقال فلم يبح الاستمتاع إلا بهما أي بالزوجة والأمة اهـ فأفاد عدم حل الاستمتاع أي قضاء الشهوة بغيرهما هذا ما ظهر لي والله سبحانه أعلم."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205201053

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں