بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوہ عورت سے چھپ کر نکاح کرنا


سوال

کیا اپنے ہی دفتر میں ملازمہ جو کہ بیوہ ہو اس سے شادی کرسکتے ہیں؟ اور اگر اس شادی کے بارے لوگوں کو نہ بتایا جاۓ؛ کیوں کہ اس سے دونوں کی شہرت نقصان پہنچنے کا احتمال ہو؟

جواب

واضح رہے کہ   بیوہ عورت سے نکاح کرنا کوئی عیب کی بات نہیں،  بلکہ کارِ ثواب ہے،  دینی ماحول نہ ہونے اور اسلامی تعلیمات سے ناواقفیت کی بناپر  لوگ بیوہ کے نکاحِ  ثانی کو معیوب سمجھتے ہیں، حال آں کہ بیوہ کا نکاح نہ کرنا زمانہ جاہلیت کی رسم ہے، عرب میں یہ رسم تھی کہ جب کوئی شخص مال چھوڑ کر مر جاتا تو اس کی بیوی کو نکاح نہ کرنے دیتے، تاکہ اس کا مال اس کے پاس رہے۔ قرآنِ کریم نے اس رسم کو توڑا اورنکاح کی اجازت دی۔

سورۂ بقرۃ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :

{وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ فِي أَنْفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ} [البقرۃ: ۲۳۴]

ترجمہ: ’’اور جو لوگ تم میں سے وفات پاجاتے ہیں اور بیبیاں چھوڑ جاتے ہیں وہ بیبیاں اپنے آپ کو (نکاح وغیرہ سے) روکے رکھیں چار مہینے اور دس دن، پھر جب اپنی میعاد (عدت) ختم کرلیں تو تم کو کچھ گناہ نہ ہوگا ایسی بات میں کہ وہ عورتیں اپنی ذات کے لیے کچھ کاروائی (نکاح کی) کریں قاعدے کے موافق، اور اللہ تعالیٰ تمہارے تمام افعال کی خبر رکھتے ہیں‘‘۔

تفسیر عثمانی میں ہے:

’’جب بیوہ عورتیں اپنی عدّت پوری کرلیں یعنی غیر حاملہ چار ماہ دس روز اور حاملہ مدتِ حمل تو ان کو دستور شریعت کے موافق نکاح کر لینے میں کچھ گناہ نہیں اور زینت اور خوش بو  سب حلال ہیں‘‘۔ (سورۂ بقرہ، آیت : ۲۳۴)

سنن ترمذی کی روایت میں ہے:

"عن محمد بن عمر بن علي بن أبي طالب، عن أبيه، عن علي بن أبي طالب، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال له: " يا علي، ثلاث لاتؤخرها: الصلاة إذا آنت، والجنازة إذا حضرت، والأيم إذا وجدت لها كفئًا".

(1 / 320، باب ما جاء في الوقت الأول من الفضل، أبواب الصلوٰۃ، ط: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي - مصر)

’’ترجمہ: حضرت علی کرم اللہ وجہہ راوی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: علی ! تین باتوں کے کرنے میں دیر نہ کیا کرنا: ایک تو نماز ادا کرنے میں جب کہ وقت ہو جائے، دوسرے جنازے میں جب تیار ہوجائے، اور تیسری بے خاوند عورت کے نکاح میں جب کہ اس کا کفو (یعنی ہم قوم مرد) مل جائے‘‘۔

اس حدیثِ  مبارک کی تشریح میں علامہ نواب قطب الدین خان دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

’’... اس موقعہ پر حدیث کی مناسبت سے ایک تکلیف دہ صورتِ  حال کی طرف مسلمانوں کی توجہ دلا دینا ضروری ہے،  آج کل یہ عام رواج سا ہوتا جا رہا ہے کہ لڑکیوں کی شادی میں بہت تاخیر کی جاتی ہے، اکثر تاخیر تو تہذیبِ  جدید کی اتباع اور رسم و رواج کی پابندی کا نتیجہ ہوتی ہے ... پھر نہ صرف یہ کہ کنواری لڑکیوں کی شادی میں تاخیر کی جاتی ہے،  بلکہ اگر کوئی عورت شوہر کے انتقال یا طلاق کی وجہ سے بیوہ ہوجاتی ہے تو اس کے دوبارہ نکاح کو انتہائی معیوب سمجھا جاتا ہے، اس طرح اس بے چاری کے تمام جذبات و خواہشات کو فنا کے گھاٹ اتار کر اس کی پوری زندگی کو حرمان و یاس، رنج و الم اور حسرت و بے کیفی کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ یہ تو تقریباً سب ہی جانتے ہیں کہ تمام اہل سنت و الجماعت کا متفقہ طور پر یہ عقیدہ ہے کہ جو آدمی کسی معمولی سنت کا بھی انکار کرے  یا اس کی تحقیر کرے تو وہ کافر ہو جاتا ہے اور یہ سبھی لوگ جانتے ہی کہ بیوہ عورت کا نکاح کرنا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ عظیم و مشہور سنت ہے جس کی تاکید بے شمار احادیث سے ثابت ہے۔ لیکن! افسوس ہے کہ مسلمان جو اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس سے محبت کا اقرار کرتے ہیں مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سنت پر پابندی کے ساتھ عمل کرنے کا کوئی جذبہ نہیں رکھتے۔ کتنے تعجب کی بات ہے کہ کوئی آدمی تو اپنی مجبوریوں کی آڑ لے کر لڑکیوں کی شادی میں تاخیر کرتا ہے، کوئی تہذیب جدید اور فیشن کا دل دادہ ہو کر اس سعادت سے محروم رہتا ہے اور کوئی آدمی طعن و تشنیع کے خوف سے بیوہ کی شادی کرنے سے معذوری ظاہر کرتا ہے،  گویا وہ لوگوں کے طعن و تشنیع کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر ترجیح دیتا ہے، حال آں کہ دانش مندی کا تقاضا تو یہ ہے گویا وہ لوگوں کے اس طعن و تشنیع کو اپنے لیے باعثِ  سعادت اور قابلِ  فخر جانے کہ انبیاء علیہم السلام اور اللہ کے نیک بندوں کے اچھے کاموں پر ہمیشہ ہی لوگوں نے طعن و تشنیع کی ہے، مگر ان لوگوں نے اللہ کے حکم کی اطاعت و فرماں  برداری اور نیک کاموں میں کبھی کوتاہی یا قصور نہیں کیا ... حضرت مولانا الشاہ عبدالقادر رحمہ اللہ  نے آیت {وَاَنْكِحُوا الْاَيَامٰى مِنْكُمْ} 24۔ النور : 32) کے ضمن میں اس حدیث کا ترجمہ اس طرح کیا ہے: سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: علی! تین کاموں میں دیر نہ کرو۔ (١) فرض نماز کی ادائیگی میں جب کہ اس کا وقت ہو جائے۔ (٢) جنازے میں جب کہ موجود ہو۔ (٣) بیوہ عورت (کے نکاح میں) جب کہ اس کی ذات (و مرتبہ) کا مرد مل جائے۔ جو شخص (بیوہ کو ) دوسرا خاوند کرنے میں عیب لگائے (تو سمجھو کہ ) اس کا ایمان سلامت نہیں ہے‘‘۔ (مظاہر حق)

ان آیات واحادیث سے معلوم ہواکہ بیوہ کانکاح شرعاً کوئی معیوب یا مخفی رکھنے کی چیز نہیں ہے، بلکہ اگر اس کے حقوق کی رعایت رکھ سکتا ہو  ایک مستحسن اور اچھا کا ہے، اس کو چھپانے کی ضرورت نہیں ہے۔

لہذا اگر آپ بیوہ عورت سے نکاح کرنا چاہتے ہیں  اور باقاعدہ ایجاب وقبول کرکے گواہوں کی موجوگی میں نکاح ہوجائے تو یہ نکاح تو درست ہوجائے گا، لیکن نکاح  خفیہ طور پر چھپ کر کرنا   چوں کہ مصالحِ نکاح کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ بہت سی شرعی و معاشرتی برائیوں کا سبب ہے، جیسے ہم بستری کے نتیجہ میں حمل ٹھہرنے  کے بعد حمل ضائع کروانا (جوکہ ایک درجہ میں قتلِ اولاد کے زمرے میں آتا ہے)، مذکورہ مرد و خاتون کو نازیبا حرکات کرتے دیکھنے والوں کا ان کے بارے میں بدگمان ہونا یا ان پر بد چلنی کا الزام لگانا، شوہر کی جانب سے پہلی بیوی کی حق تلفی کرنا، اس لیے  نکاح کی چھپ کر کرنے کے بجائے اس کی تشہیر کردیں۔

شریعت نے   بھی نکاح کے اعلان کے حکم کے ساتھ ساتھ مساجد میں نکاح کی تقریب منعقد کرنے کی ترغیب بھی دی ہے؛ تاکہ اس حلال و پاکیزہ بندھن سے بندھنے والے افراد پر حرام کاری کا الزام لگانے کا موقع کسی کو نہ ملے اور ایک پاکیزہ معاشرہ وجود میں آ سکے جو نسلِ انسانی کی بقا کا ذریعہ ہو۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

’’عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم:  أَعْلِنُوا هَذَا النِّكَاحَ، وَاجْعَلُوهُ فِي الْمَسَاجِدِ ...‘‘ الحديث.

(سنن الترمذي، باب ما جاء في إعلان النكاح)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144202201324

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں