بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیرون ملک مقیم شخص اپنے بچوں کا صدقہ فطر کس قیمت پہ ادا کرے؟


سوال

بیرون ملک میں رہنے والے اپنے بچوں کا صدقہ الفطر کس طرح اداکرے ؟

جواب

صدقہ فطر کی مقدار گندم کے حساب سے  پونے دو کلو گندم ہے اور کھجور، جو اور کشمش کے حساب سے ساڑھے تین کلو  کھجور، جَو  اور کشمش  ہے، چاہےکہیں بھی ادا کیا جائے، اور اگر قیمت ادا کرنی ہے تو   جس شخص پر صدقہ فطر ادا کرنا واجب ہے، اس کی جگہ کا اعتبار ہوگا، یعنی عید الفطر کی صبح صادق کے وقت وہ جہاں موجود ہو وہاں کی قیمت کا اعتبار ہوگا؛  لہذا  اگر کوئی شخص  کسی اور ملک میں مقیم ہو  اور عید الفطر بھی وہیں کرے تو  اس پر اپنا اور اپنے نابالغ بچوں کا صدقہ فطر  اسی  (بیرون) ملک کے نرخ کے حساب سے دینا لازم ہوگا،  چاہے اس کے بچے اس کے ساتھ بیرون ملک میں ہی مقیم ہوں یا اپنے آبائی وطن میں ۔

اور اس کے  بالغ بچوں پر بھی وہی قیمت لازم ہے جس ملک میں وہ مقیم ہوں، اگر وہ  آبائی ملک  میں ہیں،تو  ان پر ان کا اپنا صدقہ فطر  وہاں  کے نرخ کے مطابق لازم ہوگا، جو وہ خودوہاں کی قیمت کے حساب سے دے سکتے ہیں،  اور اگر (بیرون ملک مقیم) ان کے والد  ان کی طرف سے ادا کرنا چاہتے  ہیں تو ایسی قیمت لگانا بہتر ہے جس میں فقراء کا زیادہ فائدہ ہو۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 355):

"والمعتبر في الزكاة فقراء مكان المال، وفي الوصية مكان الموصي، وفي الفطرة مكان المؤدي عند محمد، وهو الأصح، وأن رءوسهم تبع لرأسه.
(قوله: مكان المؤدي) أي لا مكان الرأس الذي يؤدي عنه (قوله: وهو الأصح) بل صرح في النهاية والعناية بأنه ظاهر الرواية، كما في الشرنبلالية، وهو المذهب كما في البحر؛ فكان أولى مما في الفتح من تصحيح قولهما باعتبار مكان المؤدى عنه".

الفتاوى الهندية (1/ 190)

"ثم المعتبر في الزكاة مكان المال حتى لو كان هو في بلد، وماله في بلد آخر يفرق في موضع المال، وفي صدقة الفطر يعتبر مكانه لا مكان أولاده الصغار وعبيده في الصحيح، كذا في التبيين. وعليه الفتوى، كذا في المضمرات".

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209202149

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں