بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیماری کی نماز روزوں کے فدیے کا حکم


سوال

میرے بھائی کی عمر سترہ سال تھی، پچھلے ماہ اس کا انتقال ہو گیا ہے، کینسر کا مریض تھا، دو سال کے روزوں اور چھ ماہ کی نمازوں کا فدیہ دینا ہے، تو اس کی کیا ترتیب ہو گی؟بھائی تقریباً تین سال تک  بیمار تھے اور تقریباً تین سے چار ماہ تک تو نماز پڑھنے پر بھی  قادر نہیں تھے،تو کیا ان تین چار ماہ کا فدیہ بھی دینا پڑے گا یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ مرض کے دوران بھی مریض کو اپنی نمازوں کی ادائیگی کا اہتمام کرنا چاہیے، جیسے بھی ممکن ہو کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر یا لیٹ کر اشارے سے اپنی نماز ادا کرنا ضروری ہے،نماز رہ جانے کی صورت میں قضا لازم ہو گی،ہاں اگر مریض اشارے سے بھی نماز پڑھنے پر قادر نہ ہو تو ایسی صورت میں نماز کی ادائیگی لازم نہیں ہوتی۔

نیز : اگر  ایک  دن سے زائد کسی مریض کی ایسی حالت ہو کہ جس میں وہ صرف سر کے اشارے سے بھی نماز پڑھنے پر قدرت نہ رکھتا ہو تو جب تک اس مریض کی یہ بیماری رہے گی، اس وقت تک ان دنوں کی نمازیں اس پر سے ساقط ہوجائیں گی، اگر اسی بیماری میں مریض کا انتقال ہو جائے تو اس کے ذمے ان دنوں کی نمازیں نہیں ہوتیں، لہذا ان نمازوں کا فدیہ بھی نہیں دیا جائے گا، البتہ اگر مریض کو بیماری کے بعد اتنا افاقہ ہوجائے کہ وہ اشارے سے نماز پڑھنے پر قادر ہوجائے اور  نماز رہ جائے تو ان دنوں کی نمازوں کی قضا  اس کے  ذمے  واجب ہوتی  ہے۔

صورتِ  مسئولہ میں اگر سائل کے بھائی کا بیماری کے آخر کے مہینوں میں کوئی دن بھی ایسا نہیں تھا جس میں اس کو اشارے سے نماز پڑھنے پر قدرت تھی اور اسی حالت میں ان کی وفات ہوگئی تو سائل کے بھائی کے ذمے  بیماری کے ان دنوں کی نماز لازم نہیں تھی، لہٰذا ایسی صورت میں ان نمازوں کا  فدیہ بھی لازم نہیں ، لیکن اگر ان دنوں میں کچھ دن ایسے گزرے ہوں جن میں اتنا افاقہ ہوا ہو کہ سر کے اشارے سے نماز پڑھ سکتا تھا ( یا سابقہ بیماری کے ایام میں نماز پڑھنے پر قدرت تھی )لیکن پڑھی نہیں ، تو ان دنوں کی نمازوں کا حساب کرکے ان کا فدیہ ادا کردیا جائے۔

باقی فدیہ کی ادائیگی سے متعلق تفصیل یہ ہے کہ اگر سائل کے بھائی نے فدیہ دینے کی وصیت کی  ہے اور ترکہ میں مال بھی چھوڑا ہے تو ( مرحوم پر اگر قرض ہو تو اس کی ادائیگی کے بعد بقیہ ترکہ کے)ایک تہائی ترکہ سے اس کی وصیت کے مطابق فدیہ ادا کرنا ورثاء پر لازم ہوگا اور اگر مرحوم نے وصیت نہیں کی  تو ایسی صورت میں ورثاء کے ذمے فدیہ ادا کرنا لازم نہیں، البتہ اگر ورثا اپنی خوشی سے اس کی نماز روزوں کا فدیہ ادا کردیں گے تو یہ مرحوم  بھائی کے ساتھ  نیکی  ہوگی ، اورہر نماز اور ہر روزے کا فدیہ ایک صدقہ فطر (گندم  کے اعتبار سے  پونے دو کلو گندم یا  پونے دو کلو گندم  کی مارکیٹ کی قیمت ہے، احتیاطاً دو کلو گندم یا اس کی قیمت) ہوتا ہے،ایک دن میں وتر کے ساتھ کل چھ نمازیں ہوتی ہیں،جن کے چھ فدیے دینے ہوتے ہیں،اور فدیہ کا مصرف وہی ہے جو زکاۃ کا مصرف ہے یعنی مسلمان فقیر جو سید اور ہاشمی نہ ہو اور صاحبِ نصاب بھی نہ ہو ،لہٰذا   ورثاء مرحوم کی نماز روزوں کے حساب سے ان کی کل قضا شدہ روزوں اور نمازوں کا اندازہ لگاکر  فی نماز  پونے دو کلو گندم یا اس کاآٹا یا اس کی موجودہ قیمت کسی ایسے مسلمان فقیر جو سید اور ہاشمی نہ ہو اور صاحبِ نصاب بھی نہ ہو کو ادا کردیں تو فدیہ ادا ہوجائے گا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 72):

"(ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى بالكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرة.
(قوله: وعليه صلوات فائتة إلخ) أي بأن كان يقدر على أدائها ولو بالإيماء، فيلزمه الإيصاء بها، وإلا فلا يلزمه وإن قلت، بأن كانت دون ست صلوات، لقوله عليه الصلاة والسلام: «فإن لم يستطع فالله أحق بقبول العذر منه». وكذا حكم الصوم في رمضان إن أفطر فيه المسافر والمريض وماتا قبل الإقامة والصحة، وتمامه في الإمداد. مطلب في إسقاط الصلاة عن الميت.
(قوله: يعطى) بالبناء للمجهول: أي يعطي عنه وليه: أي من له ولاية التصرف في ماله بوصاية أو وراثة فيلزمه ذلك من الثلث إن أوصى، وإلا فلا يلزم الولي ذلك؛ لأنها عبادة فلا بد فيها من الاختيار، فإذا لم يوص فات الشرط فيسقط في حق أحكام الدنيا للتعذر، بخلاف حق العباد فإن الواجب فيه وصوله إلى مستحقه لا غير، ولهذا لو ظفر به الغريم يأخذه بلا قضاء ولا رضا، ويبرأ من عليه الحق بذلك، إمداد.
ثم اعلم أنه إذا أوصى بفدية الصوم يحكم بالجواز قطعاً؛ لأنه منصوص عليه. وأما إذا لم يوص فتطوع بها الوارث فقد قال محمد في الزيادات: إنه يجزيه إن شاء الله تعالى، فعلق الإجزاء بالمشيئة لعدم النص، وكذا علقه بالمشيئة فيما إذا أوصى بفدية الصلاة؛ لأنهم ألحقوها بالصوم احتياطاً؛ لاحتمال كون النص فيه معلولاً بالعجز، فتشمل العلة الصلاة وإن لم يكن معلولاً تكون الفدية براً مبتدأً يصلح ماحياً للسيئات، فكان فيها شبهة، كما إذا لم يوص بفدية الصوم، فلذا جزم محمد بالأول ولم يجزم بالأخيرين، فعلم أنه إذا لم يوص بفدية الصلاة فالشبهة أقوى".

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"وانما تجب صدقة الفطر من اربعة اشیاء من الحنطة و الشعیر والتمر و الزبیب ."

(باب صدقة الفطر، ج:1، ص:191، ط:مکتبة حقانیة)

وفیہ ایضاً:

"وهی نصف صاع من بر او صاع من شعیر او تمر."

(باب صدقة الفطر، ج:1، ص:191، ط:مکتبة حقانیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506101986

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں