بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 محرم 1447ھ 11 جولائی 2025 ء

دارالافتاء

 

بیٹریوں کی حفاظت کے لیے ان میں پانی ڈالنے کا حکم


سوال

ایک آدمی ایک ہزار کلو خراب بیٹری فی کلو چار سو روپے کی خریدتا ہے،بسا اوقات ان خراب بیٹریوں کی قیمت کم ہوکر 350  پر آجاتی ہے،اب یہ آدمی قیمت بڑھ جانے کا انتظار کرتا ہے،اور بیٹریوں کی حفاظت کے خاطر  ان میں پانی ڈالتا ہے،جس سے بیٹریاں محفوظ ہو جاتی ہیں ؛کیونکہ اگر پانی نہ ڈالے تو بیٹریاں بے کار ہوجاتی ہیں  یا پھر ان کے وزن میں کمی آجاتی ہے،لیکن پانی ڈالنے کی وجہ سے ان کا وزن بڑھ جاتا ہے اگر چہ فروخت کے وقت پانی نکال دیا جاتا ہے مگرپھر  بھی کچھ وزن کا اضافہ ہوجاتاہے،اور مارکیٹ میں عمومی رواج اسی طرز پر ہے کہ خریدنے والے کو بھی معلوم ہوتا ہے اس بیٹری کی حفاظت کے خاطر اس میں پانی ڈالنے کی وجہ سے اس کا کچھ وزن بڑھ جاتا ہے،اب آیا حفاظت کی خاطر بیٹریوں میں پانی ڈالنا اور ان کا اس طریقے پر خرید و فروخت کرنا کیسا ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر دھوکہ دینا مقصود نہ ہو اور فقط بیٹریوں کی حفاظت کے خاطر ان میں پانی ڈالا جاتا ہواور اسی طرح مارکیٹ کا عرف ہو  لینےوالے کو معلوم ہو تو یہ  خرید و فروخت جائز ہے۔

تبيين الحقائق ميں هے:

"لا يحل له أن يبيع المعيب حتى يبين عيبه لقوله عليه السلام: لا يحل لمسلم باع من أخيه بيعا وفيه عيب إلا بينه له رواه ابن ماجه وأحمد بمعناه «و مر عليه السلام برجل يبيع طعاما فأدخل يده فيه فإذا هو مبلول فقال من ‌غشنا ‌فليس ‌منا» رواه مسلم وغيره «وكتب عليه السلام كتابا بعد ما باع فقال فيه هذا ما اشترى العداء بن خالد بن هودة من محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم اشترى منه عبدا أو أمة لا داء ولا غائلة ولا خبثة بيع المسلم للمسلم رواه ابن ماجه."

(کتاب البیوع ،باب خیار العیب،ج:4،ص:31،ط:المطبعة الکبری)

شرح عقود رسم المفتی میں ہے:

"والعرف في الشرع له اعتبار … لذا عليه الحكم قد يدار."

(ص:44،ط:در سعادات اسطنبول)

الاشباہ والنظائر میں ہے:

"إنما تعتبر العادة إذا اطردت أو غلبت،ولذا قالوا في البيع: لو باع بدراهم أو دنانير،وكانا في بلد اختلف فيه النقود مع الاختلاف في المالية والرواج انصرف البيع إلى الأغلب."

(القاعدة السادسة:العادة محکمة،ص:81،ط:دار الكتب العلمية)

فقط والله اعلم.

 


فتوی نمبر : 144610100739

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں