بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

12 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بڑے بھائی کو زکات دینے کا حکم


سوال

کون سی صورت و حالت میں ہم بڑے بھائی کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں؟

جواب

 سائل کا مذکورہ بڑا بھائی اگر  مستحقِ زکاۃ ہو،(یعنی اس کے پاس اس کی بنیادی ضرورت  و استعمال (یعنی رہنے کا مکان ، گھریلوبرتن ، کپڑے وغیرہ)سے زائد،  نصاب کے بقدر  (یعنی صرف سونا ہو تو ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی موجودہ قیمت  کے برابر) مال یا سامان موجود نہ ہو  اور وہ سید/ عباسی نہ ہو، وہ زکاۃ کا مستحق ہے) تو اس صورت  میں اس کو زکوۃ کی رقم دی جاسکتی ہے، بلکہ اس کو زکوۃ کی رقم دینا زیادہ باعث ثواب ہوگا، زکوۃ کی ادائیگی کا ثواب الگ اور رشتہ داری کا لحاظ رکھنے اور صلہ رحمی کرنے کا ثواب الگ ملے گا۔

اور اگر وہ بڑا بھائی مستحق زکاۃ نہ ہو،تو اس صورت میں اسے زکات دینا جائز نہیں ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"‌ويجوز ‌دفع ‌الزكاة ‌إلى ‌من ‌سوى الوالدين والمولودين من الأقارب ومن الإخوة والأخوات وغيرهم؛ لانقطاع منافع الأملاك بينهم."

(كتاب الزكاة،فصل ركن الزكاة، ج:2، ص:50، ط:دارالكتب العلمية)

'' فتاوی عالمگیری'' میں ہے:

'' لا يجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصاباً أي مال كان دنانير أو دراهم أو سوائم أو عروضاً للتجارة أو لغير التجارة فاضلاً عن حاجته في جميع السنة، هكذا في الزاهدي، والشرط أن يكون فاضلاً عن حاجته الأصلية، وهي مسكنه، وأثاث مسكنه وثيابه وخادمه، ومركبه وسلاحه، ولا يشترط النماء إذ هو شرط وجوب الزكاة لا الحرمان، كذا في الكافي. ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من النصاب، وإن كان صحيحاً مكتسباً، كذا في الزاهدي.... ولا يدفع إلى بني هاشم، وهم آل علي وآل عباس وآل جعفر وآل عقيل وآل الحارث بن عبد المطلب، كذا في الهداية ۔ ويجوز الدفع إلى من عداهم من بني هاشم كذرية أبي لهب؛ لأنهم لم يناصروا النبي صلى الله عليه وسلم، كذا في السراج الوهاج. هذا في الواجبات كالزكاة والنذر والعشر والكفارة، فأما التطوع فيجوز الصرف إليهم، كذا في الكافي.''

(کتاب الزکاة، باب المصرف، ج:1، ص:189، ط: رشیدیة)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"غریب بھائی کو زکوٰۃ دینا

سوال: کیا اپنے حقیقی غریب بھائی کو خوش حال بھائی زکوٰۃ کی رقم دے سکتا ہے؟

جواب: غریب بھائی کو زکوٰۃ دینا درست ہے، بلکہ وہ غیروں سے مقدم ہے۔ فقط واللہ اعلم۔"

(کتاب الزکاۃ،باب مصارف الزکاۃ،ج:9، ص:540، ط:ادارۃ الفاروق)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409100546

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں