بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بڑی بستی میں نماز جمعہ شروع کرنے کا حکم


سوال

سوال یہ ہے کہ ضلع وتحصیل مانسہرہ گاؤں بکی مانند ھاڑ میں جمعہ کی نماز کے لیے ہمیں بہت دور جانا پڑتاہے، لہذا ہم جمعہ کی نماز جاری کرنا چاہتے ہیں، گاؤں میں تقریبا کل آبادی 4000 ہے، تھانہ تقریبا 4 کلومیٹر دور ہے، گاؤں سے تو قریب ہے لیکن گاؤں کے اندر نہیں ، تحصیل بفہ  تقریبا 10 کلو میٹر دور ہے، ضرورت کی اشیاء گاؤں میں تقریبا  آسانی سے  مل  جاتی ہیں، اسی طرح ہسپتال بھی ہے اور حکومت کی طرف سے نمبر دار بھی موجود ہے، کیا ہم اپنی مسجد میں باقاعدہ جمعہ کی نماز شروع کراسکتے ہیں۔

جواب

واضح رہے کہ احناف کے نزدیک  جمعہ کی نماز صحیح ہونے  کے لیے  فنائے شہر  یا بڑی بستی کا ہونا ضروری ہے، چھوٹا گاؤں، چھوٹی بستی میں نماز  جمعہ درست نہیں ہوگی۔

 صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً ایسا ہے کہ وہاں لوگوں کی ضروریات پوری ہوتی ہوں، اور مختلف پیشے  کے لوگ وہاں موجود ہوں اور آبادی بھی تقریبًا   4000ہو ، ہسپتال اور نمبر دار بھی ہو تو یہ گاؤں(بکی مانند ھاڑ) بڑے گاؤں  کے حکم میں ہے اور بڑے گاؤں میں جمعہ کی نماز شروع کرنی چاہیے، لہذا مذکورہ گاؤں میں جمعہ شروع کیا جائے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"‌أما ‌المصر ‌الجامع فقد اختلفت الأقاويل في تحديده ذكر الكرخي أن المصر الجامع ما أقيمت فيه الحدود ونفذت فيه الأحكام، وعن أبي يوسف روايات ذكر في الإملاء كل مصر فيه منبر وقاض ينفذ الأحكام ويقيم الحدود فهو مصر جامع تجب على أهله الجمعة، وفي رواية قال: إذا اجتمع في قرية من لا يسعهم مسجد واحد بنى لهم الإمام جامعا ونصب لهم من يصليبهم الجمعة، وفي رواية لو كان في القرية عشرة آلاف أو أكثر أمرتهم بإقامة الجمعة فيها، وقال بعض أصحابنا: المصر الجامع ما يتعيش فيه كل محترف بحرفته من سنة إلى سنة من غير أن يحتاج إلى الانتقا ل إلى حرفة  أخرى، وعن أبي عبد الله البلخي أنه قال: أحسن ما قيل فيه إذا كانوا بحال لو اجتمعوا في أكبر مساجدهم لم يسعهم ذلك حتى احتاجوا إلى بناء مسجد الجمعة فهذا مصر تقام فيه الجمعة، وقال سفيان الثوري: المصر الجامع ما يعده الناس مصرا عند ذكر الأمصار المطلقة...وروي عن أبي حنيفة أنه بلدة كبيرة فيها سكك وأسواق ولها رساتيق وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم بحشمه وعلمه أو علم غيره والناس يرجعون إليه في الحوادث وهو الأصح."

[كتاب الصلاة، فصل في بيان شرائط الجمعة، ج:1، ص:260، ط:دارالكتب العلمية]

تبیین الحقائق میں ہے:

"(وهو) أي المصر (كل موضع ‌له ‌أمير ‌وقاض ينفذ الأحكام ويقيم الحدود)، وهذا رواية عن أبي يوسف، وهو اختيار الكرخي وعنه أنهم لو اجتمعوا في أكبر مساجدهم لا يسعهم، وهو اختيار البلخي وعنه هو كل موضع يكون فيه كل محترف ويوجد فيه جميع ما يحتاج الناس إليه في معايشهم وفيه فقيه مفت وقاض يقيم الحدود."

[كتاب الصلاة ، باب صلاة الجمعة، ج:1، ص:217، ط: المطبعة الكبرى، بولاق]

کفایت المفتی میں ہے:

"جمعہ کے مسئلے میں شہر سے مراد ایسی بستی ہے جہاں ضرورت کی چیزیں مل جاتی ہوں، تھانہ یاتحصیل اور ڈاکخانہ ہو، کوئی عالم یعنی مسائل ضروریہ بتانے والا اور کوئی معالج موجود ہو۔"

(کتاب الصلاہ، ج:3، ص: 249، ط: دار الاشاعت)

امداد الفتاوی میں ہے:

"اور کبیرہ اور صغیرہ میں ما بہ الفرق اگر آبادی کی مقدار لی جاوے تو اس کا مدار عرف پر ہوگااو عرف کے تتبع سے معلوم ہوا کہ حکام وقت جو کہ حکمائے تمدن بھی ہیں، چار ہزار آبادی کو قصبہ میں شمار کرتے ہیں۔"

(کتاب الصلاہ، ج:1، ص:418، ط: مکتبہ دار العلوم کراچی)

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

"آپ  کی بستی شہر یا قصبہ ہو یا قصبہ نما بڑا گاؤں ہو  اور اہل حرفہ (جن کی اگثر وبیشتر ضرورت ہوتی ہو) موجود ہوں اور لوگوں کے حوائج ضروریہ پورے ہوتے ہوں اور خورد ونوش کا ساماں اور کپڑا وغیرہ بکتاہو تو جمعہ صحیح ہوگا ورنہ نماز جمعہ پڑھنے کی اجازت نہیں ہوگی۔"

(کتاب الصلاہ، ج:6، ص: 90، ط: دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100530

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں