بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 شوال 1445ھ 17 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بینک یا شوروم سے قسطوں پر گاڑی خریدنا


سوال

گزارش ہے کہ بینک یا دیگر پرائیویٹ شورم والوں سے اقساط میں گا ڑی خریدنا کیسا ہے؟ کیا شرعی اعتبار سے یہ عمل سود  میں داخل ہے کہ نہیں؟ براہِ مہربانی رہنمائی فرمائیں!

جواب

مندرجہ  ذیل شرائط کے ساتھ قسطوں پر گاڑی  خریدنا جائز  ہے:

  • معاملہ متعین ہو کہ نقد  میں  چیز خریدی جا رہی ہے یا ادھار،  یعنی  قسطوں پر خریدی  جا رہی ہے۔
  • قسط کی رقم متعین ہو۔
  • مدت متعین ہو۔
  • کسی قسط کی ادائیگی میں تاخیر ہونے کی بنا پر اضافہ  (جرمانہ) کی شرط نہ ہو، نیز وقت سے پہلے قسط کی ادائیگی کی صورت میں قیمت میں کمی کی شرط نہ لگائی جائے۔

اگر ان شرائط کا لحاظ نہ رکھا گیا تو قسطوں میں خرید و فروخت کی اجازت نہیں ہوگی۔

مذکورہ حکم بینک اور شوروم وغیرہ، ہر ایک سے معاملے کرنے کے متعلق یک ساں ہے، لیکن موجودہ دور میں بینک ان شرائط کی رعایت نہیں کرتے، لہٰذا بینک سے قسطوں پر گاڑی خریدنا درست نہیں ہے، روایتی بینک قسط کی تاخیر کی صورت میں جرمانے کے نام سے اضافی رقم وصول کرتے ہیں، اور مروجہ غیر سودی بینک دوسرے عنوان سے اضافی رقم وصول کرلیتے ہیں، نیز مروجہ غیر سودی بینکوں سے  گاڑی خریدتے وقت بیک وقت ایک  سے زائد عقد کرنا لازم آتاہے، یہ ایک مستقل خرابی ہے۔

"وإذا عقد العقد على أنه إلى أجل كذا بكذا وبالنقد بكذا أو قال إلى شهر بكذا أو إلى شهرين بكذا فهو فاسد؛ لأنه لم يعاطه على ثمن معلوم ولنهي النبي صلى الله عليه وسلم عن شرطين في بيع وهذا هو تفسير الشرطين في بيع ومطلق النهي يوجب الفساد في العقود الشرعية وهذا إذا افترقا على هذا فإن كان يتراضيان بينهما ولم يتفرقا حتى قاطعه على ثمن معلوم، وأتما العقد عليه فهو جائز؛ لأنهما ما افترقا إلا بعد تمام شرط صحة العقد".

(المبسوط لمحمد بن أحمد بن أبي سهل شمس الأئمة السرخسي (المتوفى: 483هـ)، الناشر: دار المعرفة – بيروت، كتاب البيوع، باب البيوع الفاسدة، ۱۳/۷)

فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144211200527

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں