بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بینک سے حاصل شدہ سودی رقم کا حکم


سوال

پڑوف بینک میں سیونگ اکاؤنٹ کھلوا کر اس کے profit سے ضرورت مندوں کی مدد کرنا کیسا ہے؟

جواب

بینک میں سیونگ اکاؤنٹ کھلوانا اور اس کا نفع لینا ناجائز اور حرام ہے۔

اگر کسی کے پاس کسی بھی طریقے سے حرام مال آگیا ہو تو اس کا حکم یہ ہے کہ اگر اس کا مالک معلوم ہو اور وہ بلاعوض حاصل کیا گیا ہو، جیسے: سود، چوری، رشوت وغیرہ تو اس کے مالک کو واپس کرنا ضروری ہے، یعنی  وہ جہاں سے آیا ہے وہیں اسے واپس دے دیا جائے، مالک وفات پاچکا ہو تو اس کے ورثاء کو لوٹا دیا جائے۔ اور اگر یہ ممکن نہ ہوتو  ثواب کی نیت کے بغیر  اسے مستحقِ زکاۃ کو صدقہ کرنا ضروری ہے۔  اور اگر وہ بالعوض حاصل کیا گیا ہو، جیسے حرام ملازمت وغیرہ کے ذریعے تو اسے مالک کو واپس کرنا درست نہیں ہے، بلکہ اس کا یہی ایک مصرف ہے کہ اسے ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کردیا جائے۔

اس نیت سے حرام مال کمانا کہ اس کو خود استعمال نہیں کریں گے، بلکہ غریبوں پر صدقہ کریں گے، شرعاً جائز نہیں ہے،  ایسے لوگ  حرام  کا ارتکاب کرکے خود تو گناہ گارہوتے ہیں اورغریبوں کادنیوی  فائدہ کرتے ہیں، یہ بڑی نادانی ہے کہ انسان اپنا دینی نقصان کرکے دوسروں کابھلاکرے اور دوسروں کے دنیوی فائدے کے لیے اپنی آخرت بربادکرے۔

حرام  رقم غلطی سے ملکیت میں آگئی ہوتو اسے صدقہ کرنا لازم ہے، مگر اس کایہ مطلب نہیں کہ صدقہ کی نیت سے انسان حرام کماتا رہے،مشرکینِ مکہ سخت  قحط کے زمانے میں جواکھیلتے تھے اورجیتی ہوئی اشیاءخود استعمال میں نہیں لاتے تھے، بلکہ فقیروں پر صدقہ کردیا کرتے تھے، مگر اس کے باوجود ان کاعمل ناجائز اورحرام ہونے کی وجہ سے اس کی مذمت کی گئی۔ خلاصہ یہ ہے کہ صدقہ اور لوگوں کی فلاح وبہبود کی نیت سےحرام مال کمانے کی اجازت نہیں،  جیساکہ توبہ کی نیت سے گناہ کی اجازت نہیں  ہے اوراس وجہ سے بدپرہیزی کرنا معقول نہیں کہ دواموجود ہے۔

''فتاوی شامی'' میں ہے:

"والحاصل: أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لايحل له ويتصدق به بنية صاحبه".  (5/99،مَطْلَبٌ فِيمَنْ وَرِثَ مَالًا حَرَامًا، ط: سعید)   فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144108200515

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں