اگر کسی شخص نے بینک سے قرضہ لیا اور اس پر سود لگنے سے پہلے ہی قرض کی ادائیگی کردیا تو یہ جائز ہے؟
واضح رہے کہ سودی معاملہ کرنا اور سود پر راضی ہونا الگ گناہ ہے اور سود کی رقم دینا الگ گناہ ہے۔ صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص پر سود دینے کا گناہ تو نہیں آئے گا، لیکن سودی معاملہ کرنا اور اس پر رضامندی کا اظہار کرنے کا گناہ ضرور آئے گا، اور سودی معاہدہ کرنے والے پر بھی حدیث شریف میں لعنت آئی ہے؛ اس لیے بینک سے قرض لینا اور سودی معاہدہ کرنا ہی ناجائز ہے۔
عمدة القاري شرح صحيح البخاري (11 / 200):
"إن آيات الربا التي في آخر سورة البقرة مبينة لأحكامه وذامة لآكليه، فإن قلت: ليس في الحديث شيء يدل على كاتب الربا وشاهده؟ قلت: لما كانا معاونين على الأكل صارا كأنهما قائلان أيضا: إنما البيع مثل الربا، أو كانا راضيين بفعله، والرضى بالحرام حرام". فقط و الله أعلم
فتوی نمبر : 144110200678
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن