بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

باندیوں کے احکام


سوال

صحابہ کرام کے دور میں جب لونڈی کی خرید و فروخت ہوتی تھی تو کیا ان کے لیے یہ جائز تھا کہ لونڈی کو ہاتھ لگائیں یا اس کے ستر کو دیکھیں؟

جواب

واضح رہے کہ  رسول اللہ ﷺ جب اسلام کی ہدایت لے کر  آئے تو لوگوں میں پہلے سے ہی غلام اور باندیوں کا رواج تھا، اسلام نے اس  رواج کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کیے اور مسلمانوں کو مختلف مواقع پر کفارے میں غلام آزاد کرنے کی ترغیب دی، جیسا کہ روزوں، ظہار، قسم وغیرہ کے کفارے۔ اور اس پر صحابہ کرام نے عمل بھی کیا۔

البتہ جب تک باندیاں موجود تھیں تو ان کے لیے یہ حکم تھا کہ اگر کسی نے کوئی باندی خریدی اور وہ کسی کی منکوحہ نہ ہو تو اس کے مالک کو حق تھا کہ  وہ اس کو دیکھے  یا اس سے اپنی حاجت پوری کرے جیساکہ بیوی سے کرتاہے، اور اس نفع اندوزی کی اجازت اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں مختلف مقامات پر دی ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

{وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْعَادُونَ} [المؤمنون:۵ تا ۸]

ترجمہ: اور جو اپنی شہوت کی جگہ کو تھامتے ہیں، مگر اپنی عورتوں پر یا اپنے ہاتھ کے مال باندیوں پر، سو ان پر نہیں کچھ الزام۔ پھر جو کوئی ڈھونڈے اس کے سوا سو وہی ہیں حد سے بڑھنے والے۔ (ترجمہ از شیخ الہند)

حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی نور اللہ مرقدہ، اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

’’ {فَمَنِ ابْتَغٰى وَرَآءَ ذٰلِكَ فَاُولٰئکَ هُمُ الْعٰدُوْنَ}، یعنی منکوحہ بیوی یا شرعی قاعدہ سے حاصل شدہ لونڈی کے ساتھ شرعی قاعدے کے مطابق قضاءِ شہوت کے علاوہ اور کوئی بھی صورت شہوت پورا کرنے کی حلال نہیں، اس میں زنا بھی داخل ہے اور جو عورت شرعاً اس پر حرام ہے اس سے نکاح بھی حکمِ زنا ہے، اور اپنی بیوی یا لونڈی سے حیض و نفاس کی حالت میں یا غیر فطری طور پر جماع کرنا بھی اس میں داخل ہے۔ یعنی کسی مرد یا لڑکے سے یا کسی جانور سے شہوت پوری کرنا بھی۔ اور جمہور کے نزدیک استمنا بالید یعنی اپنے ہاتھ سے منی خارج کرلینا بھی اس میں داخل ہے‘‘۔

(از تفسیر بیان القرآن۔ قرطبی۔ بحر محیط وغیرہ) (معارف القرآن)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144202200291

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں