بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بکریوں کا ریوڑ فروخت کرنا


سوال

مشتری نے بائع سے کہا مجھے 20بکریاں ہر بکری 13000قیمت کے بدلے دے دو ، اور ساتھ میں یہ بھی کہہ دیا کہ پیسے یکم کو دوں گا، اس بات پر دونوں راضی ہوگئے، بعد میں بائع نے کہا: آپ مجھ سے 25 بکریاں لے لو، ہر بکری 14 ہزار کے بدلے اور پیسے اگلے سے اگلے یکم کو دے دو،  تو آیا یہ جائز ہے یا نا جائز ؟ سود کا احتمال ہے کہ نہیں شرعی نقطۂ  نظر سے  راہ نمائی فرمائیں!

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ سودا اگر باہمی رضامندی سے طے پاجائے تو شرعًا جائز ہوگا، مذکورہ سودا سودی قرار نہیں پائے گا، اس لیے کہ شرعًا سود   اس اضافے کو کہا جاتا ہے  جو ہم جنس مال (نقدی، مکیلی یا موزونی چیز )  کے تبادلے میں بغیر عوض آئے اور عقد کے وقت مشروط ہو، نیز جو سودا شرعًا فاسد ہوتا ہے وہ سودی معاملے کے حکم میں ہوتی ہے، جب کہ مسئولہ صورت میں رقم کے عوض بکریاں موجود ہیں، نیز خرید و فروخت کے وقت قیمت کی کوئی حد شریعت مطہرہ نے مقرر نہیں فرمائی ہے، قیمت طے کرنے کو عاقدین کی باہمی رضامندی پر موقوف کیا ہے، لہذا اگر عاقدین 25 بکریوں کی خرید و فروخت اس طور پر کرنے تیار ہوجائیں کہ ہر بکری کی قیمت 14000 طے پائے تو شرعًا  اس کی اجازت ہوگی۔

موسوعة الفقه الإسلامي للتويجري میں ہے:

حكم بيع المعدود:

كل ما يباع بالعدد، ولا يراعى فيه الوزن، يجوز بيعه متفاضلا كالإبل، والسيارات، والآلات، والثياب، والأحذية وغير ذلك من المعدودات، لأن علة الربا في غير المطعومات إما الوزن والكيل، أو الثمنية.

وهذه ليست موزونة، ولا مكيلة، ولا أثمانا للأشياء، فيجوز بيعها بجنسها أو بغيره، متفاضلة أو متساوية، بثمن عاجل أو آجل."

(الباب الحادي عشر كتاب المعاملا، ٤- الربا، ٣ / ٤٨٥، ط: بيت الأفكار الدولية)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212200665

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں