بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بیت المقدس کی جانب پاؤں کرکے سونا


سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ قبلۂ اوّل یعنی بیت المقدس کی طرف پیر کرکے سونا کیسا ہے؟

جواب

قبلۂ اول یعنی بیت المقدس کی طرف پاؤں کرکے لیٹنے یا سونے میں  شرعاً  کوئی گناہ نہیں ہے، قبلے کی طرف پاؤں پھیلانے کی ممانعت بیت اللہ کے ساتھ خاص ہے۔

واضح رہے کہ بیت المقدس  ہمارے بلاد سے جانبِ مغرب میں ہی واقع ہے، البتہ بیت اللہ کے مقابلے میں چند درجے شمال کی جانب ہے، لیکن ہمارے ہاں سے اسے شمال کی جانب نہیں کہا جائے گا، بلکہ مغرب میں ہی کہا جائے گا، جب کہ بیت اللہ کے اعتبار سے دیکھا جائے تو بیت المقدس مکہ مکرمہ سے شمال کی طرف ہے، اور بیت اللہ اور بیت المقدس کے درمیان مدینہ منورہ ہے،  بعض روایات میں قضائے حاجت کے دوران دونوں قبلوں کی طرف رُخ اور پیٹھ کرنے کی ممانعت منقول ہے، لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر بیت المقدس کی طرف رُخ یا پشت کی جائے تو بیت اللہ اس کی جانبِ مقابل میں ہوتاہے؛ لامحالہ بیت اللہ کی طرف پشت یا رُخ ہوجائے گا، لہٰذا ایسے علاقوں میں بیت الخلا میں بیت المقدس کی طرف رُخ یا پشت کرنے کا مطلب بیت اللہ کی بے ادبی ہے، اس لیے اس کی ممانعت ہوگی۔

بذل المجهول في حل سنن أبي داؤد، كتاب الطهارة:

"(نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن تستقبل القبلتين) أي الكعبة وبيت المقدس (ببول وغائط) فيحتمل أنه احترام لبيت المقدس مدة كونه قبلة لنا، أو لأن باستقباله تستدبر الكعبة لمن كان بنحو طيبة، فليس النهي لحرمة القدس". (رقم الحديث 10، الطبعة الثالثة، (1/199) دار البشائر الإسلامية) فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144108201156

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں