بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بہو سے زنا کی ناکام کوشش کرنے کی صورت میں بیٹے اور بہو کے نکاح کا حکم


سوال

ایک شخص اپنی بہو کے ساتھ زنا کے ارادے سے اس پر حملہ کرتا ہے اور اس کی بہو راضی نہیں ہوتی اور  مزاحمت کر کے سسر سے اپنی عزت بچاتی ہے، اب  پوچھنا یہ ہے کہ اس صورت میں یہ لڑکی اس کے بیٹے؛ جس کے نکاح میں ہے؛  اس لڑکے کے باپ کی اس حرکت کے بعد اس لڑکے کے نکاح میں باقی رہی يا نہیں؟ کیا ہمیشہ کے لیے اس پر حرام ہو گی؟ کیا وہ لڑکا حلالے  کے بعد اس لڑکی سے دوبارہ نکاح کرسکتا ہے؟ یا خالی دوبارہ صرف نکاح سے مسئله حل هوجائے گا؟ ارادہ کیا،  ليكن  زنا میں کامياب نہیں ہوسکا،  بہو نے مزاحمت کر کے اپنی عزت بچائي،  سسر نے بعد میں بہو سے پاوں پکڑ کے معافی بھی مانگی،  معافی مانگنے سے اس کا ارداہ ظاہر ہو رہا ہے۔

جواب

اگر   کوئی  شخص اپنی بہو  کو  شہوت کے ساتھ اس طرح چھوئے  کہ اس کے اور بہو کے جسم کے درمیان کوئی حائل نہ ہو یا حائل تو ہو، لیکن اس سے بدن کی گرمی محسوس ہو  یا جسم کے ایسے حصے کو بلاحائل چھوئے یا بوسہ دے، جہاں چھونے میں شہوت غالب ہواور شوہر اس کی تصدیق بھی کرے تو اس صورت میں حرمتِ مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے اور  پھر  بہو (بیٹے کی بیوی ) اپنے شوہر پر ہمیشہ کے  لیے حرام ہوجا تی ہے۔

لہذا اگر سسر نے بہو کو بلاحائل  شہوت کے ساتھ ہاتھ لگایا ہے اور  شوہر عورت کی اس بات کی تصدیق کرتا ہے تو وہ عورت  اپنے شوہر پر ہمیشہ کے لیے حرام ہوچکی ہے، شوہر پر لازم ہے کہ بیوی کو زبان سے طلاق دے کر یا زبان سے نکاح سے نکالنے کے الفاظ کہہ کر علیحدہ کردے، لیکن اگر سسر نے  بہو کے جسم کو کپڑے کے اوپر سے ہاتھ لگایا ہے اور جسم کی گرمی اسے محسوس نہیں ہوئی یا شوہر اس بات کی تصدیق نہیں کرتا تو حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی۔

دوبارہ  نکاح کرنے  یا  کسی دوسرے سے نکاح کرکے حقوق کی ادائیگی اور طلاق  لے کر عدت گزارنے کے بعد نکاح کرنے سے بھی عورت اپنے شوہر کے لیے حلال نہیں ہوگی۔

البحرالرائق میں ہے:

"و المختار القبول كما في التجنيس وفي فتح القدير وثبوت الحرمة بلمسها مشروط بأن يصدقها ويقع في أكبر رأيه صدقها وعلى هذا ينبغي أن يقال في مسه إياها لا تحرم على أبيه وابنه إلا أن يصدقها أو يغلب على ظنه صدقها ثم رأيت عن أبي يوسف ما يفيد ذلك."

(8/44، دار الكتب الاسلامي)

فتاوی شامی میں ہے :

"(قوله : وحدها فيهما) أي حد الشهوة في المس والنظر ح (قوله: أو زيادته) أي زيادة التحرك إن كان موجودًا قبلهما قوله: (به يفتى) وقيل حدها أن يشتهي بقلبه إن لم يكن مشتهيا أو يزداد إن كان مشتهيا ولا يشترط تحرك الآلة وصححه في المحيط والتحفة وفي غاية البيان وعليه الاعتماد."

(9/269، سعید)

البحرالرائق میں ہے:

"فما في الذخيرة من أن الشيخ الإمام ظهير الدين يفتي بالحرمة في القبلة على الفم والذقن والخد والرأس وإن كان على المقنعة محمول على ما إذا كانت المقنعة رقيقةً تصل الحرارة معها كما قدمناه، وقيد بكون اللمس عن شهوة؛ لأنه لو كان عن غير شهوة لم يوجب الحرمة والمراهق كالبالغ ووجود الشهوة من أحدهما كاف ، فإن ادعتها وأنكرها فهو مصدق إلا أن يقوم إليها منتشرا فيعانقها ؛ لأنه دليل الشهوة كما في الخانية وزاد في الخلاصة في عدم تصديقه أن يأخذ ثديها أو يركب معها."

(8/43،دار الكتب الاسلامي)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144308100814

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں