بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

باہر ملک میں مقیم شخص کا صدقہ فطر یہاں ادا کیا جائے تو ٹھیک ہوگا یا وہیں ادا کرنے ضروری ہے؟


سوال

5 بھائیوں  کی  ایک جوائنٹ فیملی ہے،  ان میں سے دو بھائی  دبئی میں مزدوری کرتے ہیں،  باقی ساری فیملی اکھٹی پاکستان میں  ہے، اگر ساری فیملی کا صدقہ فطرانہ یہاں ادا کیا جائے ٹھیک ہوگا یا  وہ دو بھائی اپنا  فطرانہ  وہیں دبئی میں وہ خود ادا کریں؟

جواب

صورتِ  مسئولہ  میں      اگر  آپ لوگ دبئی  میں مقیم بھائیوں کی   اجازت سے  یہاں صدقہ فطر  ادا کرنے  چاہیں تو  آپ  لوگ بھی ان کی طرف سے ادا کرسکتے ہیں،اور  اگر  وہ خود ادا کرنا  چاہیں تو  وہ خود بھی ادا کرسکتے ہیں ،  لیکن ملحوظ  رہے کہ   صدقہ فطر اجناس  (گندم، جو، کھجور، کشمش)  کے بجائے  قیمت سے  ادا کرنے کی صورت میں   ان دو بھائیوں کے صدقہ فطر میں قیمت  دبئی   کی  معتبر  ہوگی، ہاں اگر پاکستان میں پونے دو کلو گندم کی قیمت دبئی میں پونے دو کلوگندم کی قیمت سے زیادہ ہو (جو کہ فی الوقت نہیں ہے) تو پاکستان والی قیمت کا اعتبار ہوگا، کیوں کہ اس میں فقیر کا فائدہ ہے۔

حاشیة الشرنبلالی علی درر الحکام شرح مجلة الاحکام میں ہے:

"(قوله: ونقلها) أي من مكان المال إلى بلد آخر؛ لأن المعتبر في الزكاة مكان المال وفي صدقة الفطر مكان الرأس المخرج عنه في الصحيح مراعاة لا يجاب الحكم في محل وجود سببه كما في الفتح وقال في البرهان الصحيح عن أبي حنيفة وجوب أدائها أي صدقة الفطر حيث هو أي المولى كما اختاره محمد ويرجع أبو يوسف إلى وجوبها حيث هم كالزكاة. اهـ. فقد اعتبر مكان المولى وهو تصحيح المحيط والبدائع وتصحيح الكمال خلافه، قال صاحب البحر: فقد اختلف التصحيح كما ترى فوجب الفحص عن ظاهر الرواية والرجوع إليها والمنقول من النهاية معزيا إلى المبسوط أن العبرة بمكان من تجب عليه لا بمكان المخرج عنه موافقا لتصحيح المحيط فكان هو المذهب ولهذا اختاره قاضي خان في فتاويه مقتصرا عليه. اهـ. قلت قد ظفرت بحمد الله على نص ظاهر الرواية من العناية فوضح به كلام صاحب البحر قال الأكمل - رحمه الله - وطولب بالفرق بين هذه المسألة وبين صدقة الفطر في أنه اعتبر هاهنا مكان المال وفي صدقة الفطر من تجب عليه في ظاهر الرواية وأجيب بأن وجوب الصدقة على المولى في ذمته عن رأسه فحيث كان رأسه وجب عليه ورأس مماليكه في حقه كرأسه في وجوب المؤنة التي هي سبب الصدقة فتجب حيثما كانت رءوسهم والزكاة، فإنها تجب في المال فلهذا إذا هلك سقطت فاعتبر بمكانه. اهـ.  وكذا نص على ظاهر الرواية في النهاية في صدقة الفطر فقال: وأما مكان الأداء فهو مكان من تجب عليه في ظاهر الرواية بخلاف الزكاة، فإن الاعتبار فيها بمكان المال اهـ."

(حاشية الشرنبلالي علي درر الحكام شرح مجلة الأحكام: كتاب الزكاة، باب مصارف الزكاة، نقل الزكاة إلى بلد آخر (1/ 192)،ط. دار إحياء الكتب العربية)

وفتاوی رحیمیہ: کتاب الزکاة، باب مایتعلق فی الفطر (۱/ ۱۹۵)،ط۔ دار الاشاعت کراچی)

فقط، واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209201550

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں