بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بغیر نوکری پر جائے تنخواہ وصول کر کے حج پر جانے کا حکم


سوال

میں نوکری پر نہیں جاتا اور تنخواہ وصول کرتا ہوں، کیا میں حج پر جاسکتا ہوں؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں جب  سائل کسی  ادارہ  میں ملازم ہے اور ملازمت پر جائے بغیر تنخواہ وصول  کر رہا ہے تو شرعًا یہ تنخواہ سائل کے لیے حلال نہیں ہے، البتہ سائل حج پر جا سکتا ہے اور  اخراجات حلال رقم سے کرے ، حرام رقم سے نہ کرے،  ورنہ حج ہوجائے گا،  لیکن قبول نہیں ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(والثاني) وهو الأجير (الخاص) ويسمى أجير وحد (وهو من يعمل لواحد عملا مؤقتا بالتخصيص ويستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة وإن لم يعمل كمن استؤجر شهرا للخدمة أو) شهرا (لرعي الغنم) المسمى بأجر مسمى بخلاف ما لو آجر المدة بأن استأجره للرعي شهرا حيث يكون مشتركا إلا إذا شرط أن لا يخدم غيره ولا يرعى لغيره فيكون خاصا»

(قوله وإن لم يعمل) أي إذا تمكن من العمل، فلو سلم نفسه ولم يتمكن منه لعذر كمطر ونحوه لا أجر له كما في المعراج عن الذخيرة."

(کتاب الاجارۃ، باب ضمان الاجیر ج نمبر  ۶ ص نمبر ۶۹، ایچ ایم سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"مطلب فيمن حج بمال حرام» (قوله كالحج بمال حرام)..... ولذا قال في البحر ويجتهد في تحصيل نفقة حلال، فإنه لا يقبل بالنفقة ‌الحرام كما ورد في الحديث، مع أنه يسقط الفرض عنه معها ولا تنافي بين سقوطه، وعدم قبوله فلا يثاب لعدم القبول، ولا يعاقب عقاب تارك الحج. اهـ.

أي لأن عدم الترك يبتنى على الصحة: وهي الإتيان بالشرائط، والأركان والقبول المترتب عليه الثواب يبتنى على أشياء كحل المال والإخلاص كما لو صلى مرائيا أو صام واغتاب فإن الفعل صحيح لكنه بلا ثواب والله تعالى أعلم."

(کتاب الحج ج نمبر ۲ ص نمبر ۴۵۶، ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403101225

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں