بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بچے کو دودھ پلانے کی مدت


سوال

میرا سوال یہ ہے کہ میرا بچہ ایک سال کا تھا تو ہمارا نیا حمل ہو گیا تھا تو ہم نے بچے کا دودھ چھڑا دیا تھا، تین مہینے بعد ہمارا حمل مس کیرج (ضائع )ہوگیا تھا جب کہ اب بچے کی عمر ایک سال سات مہینے ہے، اگر ہم دوبارہ بچے کو ماں کا دودھ پلانا چاہیں تو پلا سکتے ہیں ؟اگر پلا سکتے ہیں تو کتنا عرصہ پلا سکتے ہیں؟ اور بچے کی عمر انگریزی مہینے میں گنی جائےگی یا عربی میں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں ماں اپنے بچے کو دو سال تک دودھ پلا سکتی ہے ، البتہ  اگر کوئی بچہ یا بچی  زیادہ کم زور ہو تو  اُسے ضرورتًا  ڈھائی  سال تک بھی دودھ  پلانے  کی  گنجائش ہے،  اور ڈھائی سال کے اندر اندر دودھ  پلادیا تو اس سے حرمتِ رضاعت بھی ثابت ہوجاتی ہے،نیز   دو   سال (یا مجبوری میں ڈھائی سال) تک دودھ   پلانے   کا حکم وجوبی نہیں ہے،، بلکہ یہ دودھ   پلانے کی  مدت ہے، لہٰذا اگر کوئی بچہ اس مدت کے پورا ہونے سے پہلے ہی خود سے دودھ چھوڑ دیتا ہے، یا والدین کے اتفاق سے اس مدت سے پہلے ہی بچے کا دودھ چھڑا دیا جاتاہے، اور  بچے کے لیے متبادل غذا کا بندوبست بھی موجود ہے تو   اس میں کوئی حرج نہیں۔

2) واضح رہے کے تمام شرعی احکام میں قمری (اسلامی) تاریخ کا اعتبار کیا جاتاہے،لہذا  بچے کو  دووھ پلانے کی مدت کے لیے قمری (اسلامی) تاریخ کا اعتبار ہوگا۔

قرآنِ کریم میں ہے:

﴿ وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ ۖ لِمَنْ أَرَادَ أَن يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ ۚ وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ لَا تُكَلَّفُ نَفْسٌ إِلَّا وُسْعَهَا ۚ لَا تُضَارَّ وَالِدَةٌ بِوَلَدِهَا وَلَا مَوْلُودٌ لَّهُ بِوَلَدِهِ ۚ وَعَلَى الْوَارِثِ مِثْلُ ذَٰلِكَ  فَإِنْ أَرَادَا فِصَالًا عَن تَرَاضٍ مِّنْهُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا ۗ وَإِنْ أَرَدتُّمْ أَن تَسْتَرْضِعُوا أَوْلَادَكُمْ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِذَا سَلَّمْتُم مَّا آتَيْتُم بِالْمَعْرُوفِ  وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ﴾  [ البقرة : 233]

ترجمہ: اور مائیں اپنے بچوں کو دوسال کامل دودھ  پلایا کریں،  یہ (مدت)  اس کے لیے ہے جو کوئی شیر خوار گی کی تکمیل کرنا چاہے،  اور جس کا بچہ ہے (یعنی باپ) اس کے ذمے  ہے ان (ماؤ ں) کا کھانا اور کپڑا  قاعدے کے موافق،  کسی شخص کو حکم نہیں دیا جاتا مگر اس کی برداشت کے موافق،  کسی ماں کو تکلیف نہ پہنچانا چاہیے اس کے بچے  کی وجہ سے،  اور نہ کسی باپ کو تکلیف دینی چاہیے اس کے بچے  کی وجہ سے۔    اور مثل  طریق مذکور کے اس کے ذمے  ہے جو وارث ہو ۔  پھر اگر دونوں دودھ  چھڑانا چاہیں اپنی رضامندی اور مشورہ  سے تو دونوں پر کسی قسم کا گناہ نہیں، اور  اگر تم لوگ اپنے بچوں کو (کسی اور انّا کا) دودھ  پلوانا چاہو تب بھی تم پر کوئی گناہ نہیں، جب کہ  ان کے  حوالہ کردو جو کچھ ان کو دینا طے کیا ہے قاعدہ کے موافق ۔ اور حق تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور یقین رکھو کہ حق تعالیٰ تمھارے کیے ہوئے کاموں کو خوب دیکھ رہے ہیں ۔(بیان القرآن)

درمختار مع حاشيہ ابن عابدين  میں ہے:

"باب الرضاع: (هو) لغةً بفتح وكسر: مص الثدي. وشرعاً: (مص من ثدي آدمية) ولو بكراً أو ميتةً أو آيسةً، وألحق بالمص الوجور والسعوط (في وقت مخصوص) هو (حولان ونصف عنده وحولان) فقط (عندهما، وهو الأصح) فتح، وبه يفتى كما في تصحيح القدوري عن العون،  لكن في الجوهرة أنه في الحولين ونصف، ولو بعد الفطام محرم وعليه الفتوى. واستدلوا لقول الإمام بقوله تعالى: {وحمله وفصاله ثلاثون شهراً} [الأحقاف: 15] أي مدة كل منهما ثلاثون غير أن النقص في الأول قام بقول عائشة: لايبقى الولد أكثر من سنتين ومثله لايعرف إلا سماعاً، والآية مؤولة لتوزيعهم الأجل على الأقل والأكثر فلم تكن دلالتها قطعيةً، على أن الواجب على المقلد العمل بقول المجتهد وإن لم يظهر دليله كما أفاده في رسم المفتى، لكن في آخر الحاوي: فإن خالفا قيل: يخير المفتي، والأصح أن العبرة لقوة الدليل.

 (قوله: لكن إلخ) استدراك على قوله: وبه يفتى. وحاصله أنهما قولان، أفتى بكل منهما ط ... (قوله: والأصح أن العبرة لقوة الدليل) قال في البحر: ولايخفى قوة دليلهما، فإن قوله تعالى: {والوالدات يرضعن} [البقرة: 233] الآية يدل على أنه  لا رضاع بعد التمام. وأما قوله تعالى: {فإن أرادا فصالاً عن تراض منهما} [البقرة: 233] فإن ما هو قبل الحولين بدليل تقييده بالتراضي والتشاور، وبعدهما لايحتاج إليهما. وأما استدلال صاحب الهداية للإمام وقوله تعالى: {وحمله وفصاله ثلاثون شهراً} [الأحقاف: 15] بناء على أن المدة لكل منهما كما مر، فقد رجع إلى الحق في باب ثبوت النسب من أن الثلاثين لهما للحمل ستة أشهر والعامان للفصال. اهـ."

(کتاب النکاح ،باب الرضاع،209/3،ط:ایچ ایم سعید)   

تفسیر بغوی میں ہے:

"قل هي مواقيت للناس والحج} جمع ميقات أي فعلنا ذلك ليعلم الناس أوقات الحج والعمرة والصوم والإفطار وآجال الديون وعدد النساء وغيرها."

(تفسیر سورۃ البقرۃ ،211/1،ط: مکتبہ درا طیبہ )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310100748

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں