بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بچوں کو صف میں کھڑا کرنا


سوال

حضرت جماعت کی نماز میں بچے کون سی صف میں کھڑے ہوں؟ اگر کسی مسجد میں نمازیوں کی ایک ہی صف بچوں کو ملا کر ہوتی ہو تو ایسی صورت میں بچے پہلی صف کے دونوں طرف کھڑے ہو سکتے ہیں ؟ کیا بعد میں آنے والے نمازی ان کونوں میں کھڑے ہوں گے ؟ ایک صاحب نے اعتراض کیا کہ بچوں کو دونوں طرف کھڑے نہیں کرنا چاہیے بلکہ کسی ایک ہی طرف کھڑے کرنے چاہئیں تاکہ بعد میں آنے والے نمازی بڑے لوگوں کے ساتھ کھڑے ہوں ۔ بچے ایک ہی طرف کھڑے ہوں اگر وہ تعداد میں زیادہ ہوں تو پھر آدھے بچے پہلی صف کے کسی کونے میں کھڑے ہوں پھر باقی بچے ان کے پیچھے دوسری صف میں اسی طرح تیسری صف میں۔ ایسی صورت میں پہلی صف ابھی مکمل نہیں ہو گی ۔

جواب

 واضح رہے کہ بچوں کا صف میں کھڑا کرنے کے بارے میں حکم یہ ہے کہ اگر ایک ہی نابالغ بچہ ہو تو اسے بالغوں کی صف میں کھڑا کیا جائےاور اگر ایک سے زیادہ بچے ہوں تو بہتر یہ ہے کہ انہیں بالغوں کی صف کے پیچھے کھڑا  کیا جائے، مگر اس زمانے میں نابالغ  بچوں کو مردوں کی صفوں میں کھڑا کرنا  ہی مناسب ہے، کیوں کہ دو یا زیادہ بچے ایک جگہ جمع ہوکر  بسا اوقات نہ صرف اپنی نماز خراب کرتے ہیں ، بلکہ دوسروں کی نماز میں بھی خلل ڈالنے کا سبب بن سکتے ہیں، تاہم ایسی صورت میں بہتر یہ ہے کہ بچے کا سرپرست اسے اپنے ساتھ لے کر صف کی ایک جانب کھڑا ہو۔ نیز  بالغ اور باشرع افراد کی موجودگی میں پہلی صف میں امام کے قریب بچے نہ کھڑے ہوں، امام کے قریب ایسے سمجھدار  افراد کھڑے ہوں جو بوقتِ ضرورت امامت کرسکتے ہوں۔

لہذا صورت مسؤلہ میں بچوں  کو بڑوں ہی کی صف میں کھڑا کرنا مناسب ہے اور بہتر یہ ہے کہ ایک جانب ہی کھڑا کریں تاکہ دوسری جانب بڑے آسکیں ۔نیز پہلی صف پوری ہونے سے پہلے دوسری بنانا درست نہیں۔

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله: و يصف الرجال ثم الصبيان ثم النساء)؛ لقوله عليه الصلاة والسلام: ليليني منكم أولو الأحلام والنهى...و لم أر صريحًا حكم ما إذا صلى ومعه رجل و صبيّ، و إن كان داخلاً تحت قوله: "و الاثنان خلفه" و ظاهر حديث أنس أنه يسوي بين الرجل و الصبي و يكونان خلفه؛ فإنه قال:  فصففت أنا و اليتيم وراءه، و العجوز من ورائنا، و يقتضي أيضًا أن الصبيّ الواحد لايكون منفردًا عن صف الرجال بل يدخل في صفهم، و أن محلّ هذا الترتيب إنما هو عند حضور جمع من الرجال و جمع من الصبيان فحينئذ تؤخر الصبيان".

(البحر الرائق ، كتاب الصلاة، باب الإمامة 3 / 416 ط:دار الفكر)

شامی میں ہے:

"(قوله: ذكره في البحر بحثًا) قال الرحمتي: ربما يتعين في زماننا إدخال الصبيان في صفوف الرجال، لأنّ المعهود منهم إذا اجتمع صبيّان فأكثر تبطل صلاة بعضهم ببعض و ربما تعدّى ضررهم إلى إفساد صلاة الرجال، انتهى."

(التحرير المختار، كتاب الصلاة، باب الإمامة  1 / 571 ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144309100697

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں