بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نومولود بچے کے کان میں اذان دینے کا حکم، نومولود کے کان میں اذان کون دے؟


سوال

بچوں کی پیدائش کے بعد کان میں اذان کا کیا حکم ہے؟ اور کس کو کان میں اذان دینی چاہیے؟

جواب

نومود کے کان میں اذان دینا سنت ہے، یہ عمل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، اس بارے میں قولی وفعلی دونوں طرح کی احادیثِ مبارکہ موجودہیں۔ ترمذی شریف کی روایت میں ہے:

''حضرت عبیداللہ بن ابی رافع اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حسن بن علی کی ولادت کے وقت ان کے کان میں اذان دیتے ہوئے دیکھا جس طرح نماز میں اذان دی جاتی ہے''۔

مظاہر حق شرح مشکاۃ المصابیح میں علامہ قطب الدین خان دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

"اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بچہ کی پیدائش کے بعد اس کے کان میں اذان دینا سنت ہے۔ مسند ابویعلی موصلی میں حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بطریقِ مرفوع (یعنی آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد) نقل کیا ہے کہ   "جس شخص کے ہاں بچہ پیدا ہو اور وہ اس کے دائیں کان میں اذان دے اور بائیں کان میں تکبیر کہے، تو اس کو "ام الصبیان" (سوکڑہ کی بیماری)سے ضرر نہیں پہنچے گا۔"

 نومولود کے دائیں کان میں اذان اوربائیں میں اقامت کہناسنت ہے۔ اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ بچے کو ہاتھوں پر اٹھاکر قبلہ رخ کھڑے ہوکر دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی جائے اور حسبِ معمول "حی علی الصلاۃ" کہتے وقت دائیں طرف اور "حی علی الفلاح" کہتے وقت بائیں طرف منہ پھیراجائے۔

بچے کے کان میں بچے  کے والد، دادا یا دیگر رشتہ داروں میں سے کوئی بھی اذان دے سکتا ہے، بلکہ کوئی اجنبی شخص بھی اذان دے سکتا ہے، البتہ نومولودکے کان میں صالح متقی مرد اذان و اقامت کہے تو بہتر ہے۔

شرح السنۃ میں ہے:

"روي أن عمر بن عبد العزيز كان يؤذن في اليمنى ويقيم في اليسرى إذا ولد الصبي". (11/273)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (7/ 2691):

"وعن أبي رافع - رضي الله عنه - قال: «رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم أذن في أذن الحسن بن علي - رضي الله عنهما - حين ولدته فاطمة بالصلاة» . رواه الترمذي، وأبو داود. وقال الترمذي: هذا حديث حسن صحيح.

(بالصلاة)  أي بأذانها، وهو متعلق بأذن، والمعنى أذن بمثل أذان الصلاة، وهذا يدل على سنية الأذان في أذن المولود۔ وفي شرح السنة: روي أن عمر بن عبد العزيز - رضي الله عنه - كان يؤذن في اليمنى ويقيم في اليسرى إذا ولد الصبي. قلت: قد جاء في مسند أبي يعلى الموصلي، عن الحسين - رضي الله عنه - مرفوعاً: «من ولد له ولد فأذن في أذنه اليمنى وأقام في أذنه اليسرى لم تضره أم الصبيان» "۔ كذا في الجامع الصغير للسيوطي رحمه الله. قال النووي في الروضة: ويستحب أن يقول في أذنه "﴿ وَاِنِّيْ اُعِيْذُهَابِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ﴾[آل عمران: 36] " قال الطيبي: ولعل مناسبة الآية بالأذان أن الأذان أيضاً يطرد الشيطان ؛ لقوله صلى الله عليه وسلم : " «إذا نودي للصلاة أدبر الشيطان له ضراط حتى لا يسمع التأذين»۔ " وذكر الأذان والتسمية في باب العقيقة وارد على سبيل الاستطراد اهـ. والأظهر أن حكمة الأذان في الأذن أنه يطرق سمعه أول وهلة ذكر الله تعالى على وجه الدعاء إلى الإيمان والصلاة التي هي أم الأركان."

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144202200715

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں