بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بچے کے کان میں موبائل کے ذریعہ اذان سنانا


سوال

موبائل کے ذریعے بچے کے کان میں اذان دینا کیسا ہے؟

جواب

بچے کی پیدائش کے بعد اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہنا مستحب ہے، اور اس کی من جملہ  حکمتوں میں سے یہ ہے کہ   کلماتِ اذان سے شیطان دور بھاگ جاتا ہے، توگویا بچہ کو شیطان کے اثر سے بچانا مقصود ہے، اور اسی طرح   کلماتِ اذان و اقامت توحید خالص اور ایمانیات کے اقرار کے ساتھ ساتھ اسلام کے سب سے اہم رکن نماز کی دعوت پر مشتمل ہیں،تو بچہ کے دنیا میں  آنے کے بعد  اس کے پردۂ سماعت سے ان کلمات کا گزارنا دراصل اس کے دل کی گہرائیوں میں ایمان وعمل کے جذبات جاگزین کرنے میں بہت مؤثر ہے، اور یہ فضیلت اور حکمت اذان  کی ریکارڈنگ  سنانے سے حاصل نہیں ہوگی ، اس لیے کسی  نومولود کے کان میں اذان واقامت خود دینا چاہیے اگر خود اذان نہ دے سکے  تو  کسی نیک شخص سے دلوانی چاہیے، اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ :       جب بچہ پیدا ہو تو نہلانے کے بعد بچہ کو اپنے ہاتھوں پر اٹھائیں  اور قبلہ رُخ ہوکر  پہلے بچے کے دائیں کان میں اذان اور پھر  بائیں کان میں اقامت کہیں ۔ "حي علی الصلاة" اور  "حي علی الفلاح" کہتے ہوئے دائیں بائیں چہرہ بھی پھیریں۔

بچے کے کان میں اذان دینے کا سنت اور متوارث طریقہ  یہی ہے، اور عبادات کے باب میں احتیاط کا تقاضہ یہی ہے کہ حتی الامکان اس کی اصل شکل کو باقی رکھا جائے، چنانچہ موبائل فون  کے ذریعہ بچہ کے کان میں اذان دینے سے  سنت طریقہ  فوت ہوجائے گا، اس لیے اس  پر كرنا درست نہیں ، اگر کسی شدیدعذر  کی وجہ سے بچے کے کان میں براہِ راست فوری طور پر اذان نہ دینا مشکل  ہو تو موبائل فون  کے ذریعہ اذان دینے کے بجائے عذر کے زائل ہونے کا انتظار کرلیا جائے اور عذر زائل ہوتے ہی براہِ راست بچے کے کان میں اذان دے دی جائے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(لا) يسن (لغيرها) كعيد.

 (قوله: لا يسن لغيرها) أي من الصلوات وإلا فيندب للمولود. وفي حاشية البحر الرملي: رأيت في كتب الشافعية أنه قد يسن الأذان لغير الصلاة، كما في أذان المولود، والمهموم..."الخ

ايضاً:

"(ويلتفت فيه) وكذا فيها مطلقاً، وقيل: إن المحل متسعاً (يميناً ويساراً) فقط؛ لئلايستدبر القبلة (بصلاة وفلاح) ولو وحده أو لمولود؛ لأنه سنة الأذان مطلقاً.

 (قوله: ولو وحده إلخ) أشار به إلى رد قول الحلواني: إنه لايلتفت لعدم الحاجة إليه ح. وفي البحر عن السراج: أنه من سنن الأذان، فلايخل المنفرد بشيء منها، حتى قالوا في الذي يؤذن للمولود: ينبغي أن يحول. (قوله: مطلقاً) للمنفرد وغيره والمولود وغيره ط".

(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) ، كتاب الحظر والإباحة، 1/ 387، ط: سعيد)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311100509

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں