بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بچہ گود لینے کا حکم


سوال

میری بہن کی چھ سال کی  ایک بیٹی ہے ، جس کے بعد کوئی اولاد نہیں ہوئی ، اب وہ چاہتی ہےکہ میں ایدھی فاؤنڈیشن سے بچہ گود لے لوں، کیا ایدھی فاؤنڈیشن سے بچہ گود لے سکتے ہیں؟

جواب

 کسی یتیم کی کفالت نہایت فضیلت والا عمل  ہے، اسی طرح سے  یتیم کو گود لینا بھی شرعًا جائز ہے، البتہ اسے اپنی ولدیت دینا بنص قرآن و حدیث حرام ہے، لہذا صورتِ  مسئولہ میں  کسی  ادارے سے بچہ گود  لینا جائز  ہے، تاہم اسے اپنی والدیت دینا جائز نہ ہوگا، نیز ایسا بچہ / بچی  چوں کہ گود لینے والے گھرانے کے  لیے محرم نہ ہوگا، جس کے سبب بلوغت کے بعد پردہ لازم ہوگا، البتہ اگر دودھ پینے والی عمر کا بچہ یا بچی گود لی جائے، اور سائل کی بہن اسے اپنا دودھ پلادے تو اس صورت میں رضاعت کے ثبوت کی وجہ سے بلوغت کے بعد پردہ کا حکم نہ ہوگا، اور اگر سائل کی بہن کے دودھ نہیں ہے اور  بچہ گود لینا ہے تو  سائل کی کوئی  دوسری بہن اسے دودھ پلادے تو سائل کی وہ بہن جو گود لے رہی ہے وہ اس بچے کی رضاعی خالہ بن جائے گی، اور اگر بچی گود لینی ہو تو سائل کے بہنوئی کی کوئی بہن اس بچے کو دودھ پلادے تو  سائل کا بہنوئی اس بچی کے لیے رضاعی ماموں بن جائے گا، اور ان صورتوں میں بلوغت کے بعد پردے کا حکم نہیں ہوگا۔ بہر صورت ایسا  بچہ / بچی سائل کی بہن اور بہنوئی کا شرعی وارث نہ  ہوگا۔

سورۂ احزاب میں ہے:

﴿ اُدْعُوهُمْ لِاٰبَآئِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ ۚ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوْا اٰبَآءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّيْنِ وَمَوَالِيكُمْ ۚ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُمْ بِهِ وَلَٰكِنْ مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ ۚ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا﴾ (الأحزاب: ٥)

ریاض الصالحین میں ہے:

"367 - باب تحريم انتساب الإِنسان إِلَى غير أَبيه وَتَولِّيه إِلَى غير مَواليه

1/1802-عَنْ سَعْدِ بن أَبي وقَّاصٍ أنَّ النبيَّقالَ: مَن ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أبِيهِ وَهُوَ يَعْلَمُ أنَّهُ غَيْرُ أبِيهِ فَالجَنَّةُ عَلَيهِ حَرامٌ. متفقٌ عليهِ\".

ترجمہ: رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : جس شخص نے اپنے والد کے علاوہ کسی دوسرے شخص کو جانتے ہوئے اپنا والد قرار دیا تو اس پر جنت حرام ہے۔

"2/1803- وعن أبي هُريْرَة عَن النَّبيِّقَالَ: لاَ تَرْغَبُوا عَنْ آبَائِكُمْ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ أبيهِ فَهُوَ كُفْرٌ. متفقٌ عليه".

ترجمہ: رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: اپنے والد سے بے رغبتی و اعراض مت کرو ؛ اس لیے کہ جو شخص اپنے والد سے اعراض (اپنے آپ کو کسی اور کی طرف منسوب) کرے گا تو یہ کفر ہے۔

"3/1804- وَعَنْ يزيدَ شريكِ بن طارقٍ قالَ: رَأَيْتُ عَلِيًّا عَلى المِنْبَرِ يَخْطُبُ، فَسَمِعْتهُ يَقُولُ: ... وَمَنِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أبيهِ، أَوْ انتَمَى إِلَى غَيْرِ مَوَاليهِ، فَعلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّه وَالملائِكَةِ وَالنَّاسِ أجْمَعِينَ، لا يقْبَلُ اللَّه مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامةِ صَرْفًا وَلا عَدْلًا. متفقٌ عليه".

حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں : جو شخص اپنے والد کو چھوڑ کر کسی اور کو اپنا والد قرار دے گا یا غیر کی طرف منسوب کرے گا تو اس پر اللہ، فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہو، روز قیامت اللہ اس کی مالی عبادات قبول نہیں کرے گا۔

"4/1805- وَعَنْ أَبي ذَرٍّ أنَّهُ سَمِعَ رسولَ اللَّهيَقُولُ: لَيْسَ منْ رَجُلٍ ادَّعَى لِغَيْر أبيهِ وَهُوَ يَعْلَمُهُ إلاَّ كَفَرَ، وَمَنِ ادَّعَى مَا لَيْسَ لهُ، فَلَيْسَ مِنَّا، وَليَتَبوَّأُ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّار، وَمَنْ دَعَا رَجُلًا بِالْكُفْرِ، أوْ قالَ: عدُوَّ اللَّه، وَلَيْسَ كَذلكَ إلاَّ حَارَ عَلَيْهِ متفقٌ عليهِ. وَهَذَا لفْظُ روايةِ مُسْلِمِ".

ترجمہ: رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : جانتے ہوئے کسی اور کے بارے میں والد ہونے کا دعوی کسی نے کیا تو اس نے کفر کیا ۔۔۔الحدیث۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211201290

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں