بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بی فار یو (B4U) میں سرمایہ کاری


سوال

B4u    كمپني سے متعلق كيا حكم هے؟

جواب

اگر آپ كا سوال  بی فاریو کمپنی میں سرمایہ کاری سے متعلق ہے تو مذکورہ کمپنی کے کاروبار کا مکمل طریقہ، و منافع کی تقسیم کا طریقہ کار و شرائط اب تک مکمل طور پر واضح نہیں ہے، البتہ اس کمپنی کی ویب سائٹ سے حاصل شدہ معلومات اور دیگر ذرائع سے دست یاب معلومات کے مطابق اس کا حکم درج ذیل ہے:

1- چوں کہ مذکورہ ادارہ کرپٹو کرنسی میں کاروبار کرتا ہے،اور اس کا کوئی مادی وجود نہیں ہے، اسے ’’کرنسی‘‘ یا ’’مال‘‘ قرار نہیں دیا جاسکتا ہے ؛ لہٰذا اس کے  ذریعہ لین دین کرنا، اس میں سرمایہ کاری کرنا اور اس کا کاروبار کرنا جائز نہیں ہے۔ 

تفصیل کے لیے دیکھیں:

 پی آئی کوئن کا حکم

2- مذکورہ کمپنی میں سرمایہ کاری کرنے پر کمپنی دوقسم کے پیکج دیتی ہے:

1: فکس منافع میں آپ کا منافع فکس ہوگا۔ 2: آپ کامنافع فکس نہیں رہتا، کم بھی اور زیادہ بھی ہوسکتا ہے۔

بصورتِ مسئولہ پہلی صورت جس میں منافع متعین ہوتا ہے،  وہ بہر صورت جائز نہیں۔

 اور دوسری صورت کے بارے میں حکم یہ ہے کہ کرپٹو کرنسی میں سرمایہ کاری چوں کہ جائز نہیں ہے، اور  اب تک مذکورہ کمپنی کے تمام پہلو بھی  مکمل واضح نہیں  ہیں ، جب کہ  صرف منافع فکس نہ ہونے سے منافع حلال نہیں ہوتا، بلکہ دیگر شرعی حدود و شرائط کا لحاظ رکھنا بھی ضروری ہے۔ لہذا اس کمپنی میں پیسے انویسٹ کرنا جائز نہیں ہے۔

3- اگر انویسٹر کے توسط سے لگنے والوں کے بعد ان کے توسط سے کاروبار میں لگنے والوں کی وجہ سے بھی پہلے انویسٹروں  کو چین در چین  اجرت یا کسی عنوان سے رقم دی جاتی ہے تو ناجائز ہونے کی ایک اور وجہ ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

(وكون الربح بينهما شائعًا) فلو عين قدرًا فسدت.

(كتاب المضاربة، ج:5، ص:648، ط:ايج ايم سعيد)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"وعن النعمان بن بشير - رضي الله عنهما - قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " «الحلال بين والحرام بين، وبينهما مشتبهات لا يعلمهن كثير من الناس، فمن اتقى الشبهات استبرأ لدينه وعرضه، ومن وقع في الحرام كالراعي يرعى حول الحمى يوشك أن يرتع فيه، ألا وإن لكل ملك حمى، ألا وإن حمى الله محارمه، ألا وإن في الجسد مضغة إذا صلحت صلح الجسد كله، وإذا فسدت فسد الجسد كله، ألا وهي القلب» ". متفق عليه."

(باب الكسب وطلب الحلال، ج:5، ص:1891، ط:دار الفكر.بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144210201138

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں