بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

b4u کا شرعی حکم


سوال

B4U حلال ہے ،یا حرام؟

جواب

مذکورہ  کمپنی کی ویب سائٹ سے حاصل شدہ معلومات اور دیگر ذرائع سے دست یاب معلومات کے مطابق اس کا حکم درج ذیل ہے:

1- چوں کہ مذکورہ ادارہ کرپٹو کرنسی میں کاروبار کرتا ہے، اور مذکورہ کرنسی  میں سرمایہ کاری جائز نہیں ہے، لہذا اس میں سرمایہ کاری کرنا درست نہیں ہے۔

2- مذکورہ کمپنی میں سرمایہ کاری کرنے پر کمپنی دوقسم کے پیکج دیتی ہے:

           1: آپ کا منافع فکس ہوگا۔ 2: آپ کامنافع فکس نہیں رہتا، کم بھی اور زیادہ بھی ہوسکتا ہے۔

بصورتِ مسئولہ پہلی صورت جس میں منافع متعین ہوتا ہے، وہ  بہر صورت جائز نہیں۔

 اور دوسری صورت کے بارے میں حکم یہ ہے کہ    کرپٹو کرنسی  میں انویسٹمنٹ کرنا جائز نہیں ہے؛ لہٰذا اس دوسری قسم (یعنی جس میں منافع متعین نہیں ہوتا) میں بھی انویسٹمنٹ  کرنا جائز نہیں ہے، کیوں کہ صرف منافع فکس نہ ہونے سے منافع حلال نہیں ہوتا، بلکہ دیگر شرعی حدود و شرائط کا لحاظ رکھنا بھی ضروری ہے۔ لہذا اس کمپنی میں پیسے انویسٹ کرنا جائز نہیں ہے۔

3- اگر انویسٹر کے توسط سے لگنے والوں کے بعد ان کے توسط سے کاروبار میں لگنے والوں کی وجہ سے بھی پہلے انویسٹر کو اجرت یا کسی عنوان سے رقم دی جاتی ہے تو یہ مزید قباحت ہے۔

کرپٹو کرنسی کا حکم جاننے کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ کیجیے:

کرپٹو کرنسی اور بٹ کوائن کا حکم

فتاوی شامی میں ہے:

"(وكون الربح بينهما شائعًا) فلو عين قدرًا فسدت."

(كتاب المضاربة، ج:5، ص:648، ط:ايج ايم سعيد)

مرقاة  المفاتيح  شرح  مشكاة المصابيح  میں  ہے:

"وعن النعمان بن بشير - رضي الله عنهما - قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "«الحلال بين والحرام بين، وبينهما مشتبهات لايعلمهن كثير من الناس، فمن اتقى الشبهات استبرأ لدينه وعرضه، ومن وقع في الحرام كالراعي يرعى حول الحمى يوشك أن يرتع فيه، ألا وإن لكل ملك حمى، ألا وإن حمى الله محارمه، ألا وإن في الجسد مضغة إذا صلحت صلح الجسد كله، وإذا فسدت فسد الجسد كله، ألا وهي القلب» ". متفق عليه."

(باب الكسب وطلب الحلال، ج:5، ص:1891، ط:دار الفكر.بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144201200699

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں