بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ربیع الثانی 1446ھ 10 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

B4U کمپنی سے منافع حاصل کرنا


سوال

B4U کمپنی سے منافع حاصل کرنے کے لیے سرمایہ کاری کرنا شرعًا کیسا ہے؟ کمپنی کے مطابق ان کا کام مضاربت پر مبنی ہے۔

جواب

مذکورہ  کمپنی کی ویب سائٹ سے حاصل شدہ معلومات اور دیگر ذرائع سے دست یاب معلومات کے مطابق اس کا حکم درج ذیل ہے:

1- چوں کہ مذکورہ ادارہ کرپٹو کرنسی میں کاروبار کرتا ہے، اور مذکورہ کرنسی پاکستان و دنیا کے بیشتر ممالک میں تاحال غیر تسلیم شدہ ہے، لہذا اس میں سرمایہ کاری کرنے سے اجتناب کیا جائے۔

2- مذکورہ کمپنی میں سرمایہ کاری کرنے پر کمپنی دوقسم کے پیکج دیتی ہے:

           1: آپ کا منافع فکس ہوگا۔ 2: آپ کامنافع فکس نہیں رہتا، کم بھی اور زیادہ بھی ہوسکتا ہے۔

بصورتِ مسئولہ پہلی صورت جس میں منافع متعین ہوتا ہے، وہ بہر صورت جائز نہیں۔

 اور دوسری صورت کے بارے میں حکم یہ ہے کہ   تاحال کرپٹو کرنسی  کا معاملہ ہی مشکوک ہے، اور ابھی تک علماء نے اس کی خرید و فروخت کی اجازت نہیں دی ہے، پس جب تک مذکورہ کمپنی کے تمام پہلو مکمل واضح نہ ہو جائیں، اس وقت تک دوسری قسم (یعنی جس میں منافع متعین نہیں ہوتا) میں بھی انویسٹمنٹ کرنے سے اجتناب کیا جائے، کیوں کہ صرف منافع فکس نہ ہونے سے منافع حلال نہیں ہوتا، بلکہ دیگر شرعی حدود و شرائط کا لحاظ رکھنا بھی ضروری ہے۔ لہذا اس کمپنی میں پیسے انویسٹ کرنا جائز نہیں ہے۔نیز پاکستان میں اس کرنسی  قانونی حیثیت بھی حاصل نہیں ہے۔

3- اگر انویسٹر کے توسط سے لگنے والوں کے بعد ان کے توسط سے کاروبار میں لگنے والوں کی وجہ سے بھی پہلے انویسٹر کو اجرت یا کسی عنوان سے رقم دی جاتی ہے تو یہ مزید قباحت ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وكون الربح بينهما شائعًا) فلو عين قدرًا فسدت."

(كتاب المضاربة، ج:5، ص:648، ط:ايج ايم سعيد)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"وعن النعمان بن بشير - رضي الله عنهما - قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " «الحلال بين والحرام بين، وبينهما مشتبهات لا يعلمهن كثير من الناس، فمن اتقى الشبهات استبرأ لدينه وعرضه، ومن وقع في الحرام كالراعي يرعى حول الحمى يوشك أن يرتع فيه، ألا وإن لكل ملك حمى، ألا وإن حمى الله محارمه، ألا وإن في الجسد مضغة إذا صلحت صلح الجسد كله، وإذا فسدت فسد الجسد كله، ألا وهي القلب» ". متفق عليه."

(باب الكسب وطلب الحلال، ج:5، ص:1891، ط:دار الفكر.بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205201511

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں