بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 ذو الحجة 1446ھ 05 جون 2025 ء

دارالافتاء

 

جو شخص اذان سنے اس پر جماعت لازم ہے کا حکم لاؤڈ اسپیکر سے اذان سننے پر بھی وارد ہوتا ہے؟


سوال

حدیث کے مطابق جو کوئی اذان سنے گا اس کو مسجد میں نماذ ادا کرنی ہوگی، کیا یہ آج کل لاؤڈ سپیکر پر دی جانے والی اذان پر بھی لاگو ہے جو ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں میں بھی سنی جاسکتی ہے؟

جواب

واضح رہے کہ اذان کا سننا جماعت کے واجب ہونے کے لیے مدار نہیں ہے، بلکہ یہ ایک قیدِ اتفاقی ہے، جو احادیث میں استطاعت بتلانے کے لیے ذکر کی گئی ہے، بایں معنیٰ کہ جس شخص میں نماز کے وجوب کی تمام شرائط موجود ہوں، مسجد جانے سے کوئی عذر مانع بھی نہ ہو، اور اس کے باوجود وہ نماز کے لیے نہ جائے، تو اس کی نماز قبول نہیں ہوتی وغیرہ، نیز جس مسجد کی اذان سنی ہو اسی مسجد میں جانا بھی ضروری نہیں ہے، بلکہ کسی بھی مسجد میں باجماعت نماز ادا کرلینا کافی ہوتا ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں جو شخص مسجد سے قریب رہتا ہو، اور اسے کوئی عذر بھی لاحق نہ ہو تو اس پر کسی بھی قریبی مسجد میں با جماعت ادا کرنا لازم ہے، چاہے اذان کی آواز سنی ہو یا نہ سنی ہو، اسی طرح اذان کی آواز خواہ لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ سنی ہو یا بغیر لاؤڈ اسپیکر کے سنی ہو، بہر صورت حکم یہی ہے۔

حاشية السندي على سنن ابن ماجه میں ہے:

"عن ابن عباس عن النبي صلى الله عليه وسلم قال من سمع النداء فلم يأته فلا صلاة له إلا من عذر.

في الحاشية: وظاهر هذا الحديث أن الجماعة في المسجد الذي سمع نداءه فرض لصحة الصلاة حتى لو تركها بطلت صلاته وهو خلاف ما عليه أهل الفقه فلا بد لهم من حمل الحديث على نقصان تلك الصلاة."

(كتاب المساجد والجماعات، باب التغليظ في التخلف عن الجماعة، ١/ ٢٦٥، ط: دار الجيل)

مرقاة المفاتيح میں ہے:

"وعن ابن عباس رضي الله عنهما، قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: من ‌سمع ‌المنادي فلم يمنعه من اتباعه عذر. قالوا: وما العذر؟ قال: خوف أو مرض لم تقبل منه الصلاة التي صلى. رواه أبو داود، والدارقطني.

. . . والتقييد بسماع النداء وبالجماعة التي يسمع مؤذنها جرى على الغالب؛ لأن الإنسان إنما يذهب إلى الجماعة التي يسمع مؤذنها، وإلا فلو ذهب لجماعة لم يسمع مؤذنها فقد أتى بالفرض، ولو لم يسمع المؤذن ولا عذر له لم يسقط عنه الفرض؛ إذ عدم سماعه المؤذن ليس من الأعذار، والحاصل أن المراد من لزمه حضور الجماعة، ولم يمنعه من المجيء إليها (عذر) أي: نوع من الأعذار . . . (فأجب) قال الحسن: إن منعته أمه عن العشاء الآخرة في الجماعة شفقة عليه لم يطعها، وقال الأوزاعي: لا طاعة للوالد في ترك الجمعة والجماعات سمع النداء أو لم يسمع، قال النووي في حديث الكهان والعراف: معنى عدم قبول الصلاة أن لا ثواب له فيها، وإن كانت مجزئة في سقوط الفرض عنه كالصلاة في الدار المغصوبة تسقط الفرض ولا ثواب فيها اهـ. وكذا الحج بمال حرام."

(كتاب الصلاة، باب الجماعة وفضلها، ٣/ ٨٣٩، ط: دار الفكر، بيروت)

الفتاوى الهندية میں ہے:

"تجب على الرجال العقلاء البالغين الأحرار القادرين على الصلاة بالجماعة من غير حرج."

(كتاب الصلاة، الباب الخامس، الفصل الأول، ١/ ٨٢، ط: رشيدية)

حاشية ابن عابدين میں ہے:

"ولو تكرر أجاب الأول.

(قوله: أجاب الأول) سواء كان مؤذن مسجده أو غيره بحر عن الفتح بحثا. ويفيده ما في البحر أيضا عن التفاريق: إذا كان في المسجد أكثر من مؤذن أذنوا واحدا بعد واحد، فالحرمة للأول اهـ لكنه يحتمل أن يكون مبنيا على أن الإجابة بالقدم."

(كتاب الصلاة، باب الأذان، ١/ ٣٩٧، ط: سعيد)

فقط والله تعالى أعلم


فتوی نمبر : 144612100049

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں