بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اذان کے وقت آفس میں اذان کی ریکارڈنگ چلانے کا حکم


سوال

ہمارے آفس میں نماز کے لیے ایک جگہ ہے،جہاں ہم آفس والے نماز پڑھتے ہیں،نماز سے پہلے ہم خوداذان دیتے ہیں،لیکن اب آفس والوں نے اذان کی ریکارڈنگ لگادی ہے،اب کیا ریکارڈنگ والی اذان پر نماز ہوگی یا نہیں؟

جواب

سنت یہ ہے کہ ہر نماز کے وقت عاقل ، بالغ یا سمجھ دار شخص اذان دے ، اذان کے وقت ریکارڈ شدہ اذان  چلا دینے سے اذان کی سنت ادا نہیں ہوگی،لہذا صورتِ مسئولہ میں آفس میں اگر اذان کے وقت اذان کی ریکارڈنگ چلائی جاتی ہے،تو اس سے اذان کی سنت ادا نہیں ہوتی،بلکہ اگر قرب وجوار میں کہیں اذان نہ ہوئی ہو ،اور آفس میں ریکارڈنگ والی اذان سے نماز پڑھی جاتی ہو،تو یہ نماز بغیر اذان کے شمار ہوگی۔( تاہم نماز کی فرضیت ادا ہوجائے گی،قرب و جوار سے اذان سنائی دے تو ریکارڈنگ کی اذان کی پھر ضرورت ہی نہیں رہتی۔)

مفتی احمد الرحمٰن صاحب رحمہ اللہ ایک فتویٰ (جس پر محدث العصر حضرت مولانا محمد یوسف بنوری نور اللہ مرقدہ کی تصدیق موجود ہے) میں تحریر فرماتے ہیں:

" ٹیپ ریکارڈ سے اذان نشر کرنا اوقاتِ نماز کے "اعلام" کے لیے کافی نہیں ہے، اور اس طرح اذان نشر کرنے سے مشروعیتِ اذان نہ ہوگی، اس لیے کہ اذان من جملہ عبادات میں سے ایک عبادت ہے، اور عبادت ادا کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ کوئی مکلف اور عبادت کرنے والا موجود ہو، اور ظاہر ہے کہ یہاں کوئی مکلف موجود نہیں ہے، اگر اس طرح ٹیپ ریکارڈ سے اذان نشر کرنے کو جائز قرار دیا جائے تو پھر دوسری عبادات میں بھی، مثلاً: کسی امام کی ریکارڈ کی ہوئی نماز کو مصلے پر رکھ کر اس کی اقتدا کی جائے، ٹیپ ریکارڈ سے وہ عبادات مشروع قرار نہیں دی جائیں گی، تو جس طرح ٹیپ ریکارڈ مصلے پر رکھ کر نماز میں اس کی اقتدا کرنا ناجائز ہے اسی طرح ٹیپ ریکارڈ سے نشر کی ہوئی اذان بھی منشأ شریعت کے خلاف اور غیر مشروع ہے"۔

"ردالمحتار"میں ہے:

"وذكر في البدائع أيضاً: أن أذان الصبي الذي لايعقل لايجزي ويعاد؛ لأن ما يصدر لا عن عقل لا يعتد به، كصوت الطيور ...... أن المقصود الأصلي من الأذان في الشرع الإعلام بدخول أوقات الصلاة, ثم صار من شعار الإسلام في كل بلدة أو ناحية من البلاد الواسعة على ما مر، فمن حيث الإعلام بدخول الوقت وقبول قوله لا بد من الإسلام والعقل والبلوغ والعدالة".

(كتاب الصلاة، ج:1، ص:394، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144407100049

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں