بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اعضاءِ وضو میں ترتیب کا حکم اور نماز کی رکعتوں کی تعداد میں شک ہوجانے کا حکم


سوال

وضو کرتے وقت ایک عضو کو دھونا بھول گئے اور اگلے عضو کو دھو ڈالا تو یاد آیا کہ ابھی پچھلا عضو دھونا باقی تھا ،اب اس صورتِ حال میں وضو  پھر سے شروع کیاجائے گا یا پھر جو عضو رہ گیا تھا اسی کو دھو کر وضو کو مکمل کیا جائے گا؟

دورانِ نماز رکعات بھول گئیں  آیا  کہ تین ادا کی ہیں یا چار   ... اس شک کی صورت میں کیا کیا جائے ؟

جواب

واضح رہے اعضائے وضو میں ترتیب کا لحاظ رکھنا سنت ہے  ،لہذا وضو کرتے ہوئےاگر ترتیب میں خلل واقع ہوجائےتو  ترتیب سے پورا کرنا بہتر ہے، لازم نہیں ہے، لہذا جو عضو دھونے سے رہ گیا ہو فقط اسے ہی دھو لیا جائے  تو بھی جائز ہے اور اگر ترتیب  سے وضو کرے تو بہتر ہے۔

اگر نماز کے دوران رکعات کی تعداد میں شک واقع ہوجائے کہ آیا تین رکعات ادا کی ہیں یا چار ؟تو  مبتلابہ کی حالت کے اعتبار سے تین صورتیں ہیں :

1.اگر  نماز میں اس قسم کا  شک  پہلی مرتبہ ہورہا ہے تو از سر نو نماز پڑھ لے ۔

2.اگر نماز میں یہ شک اکثر و بیشتر ہوتا رہتا ہو تو  غالب گمان کے مطابق نماز مکمل کرے ، یعنی  مسئولہ صورت میں اگر غالب گمان تین رکعات کا ہو تو ایک رکعت  مزید ملا کر نمازکے آخر میں سجدہ سہو کرکے نماز مکمل کرلے ۔

3.اگر نماز میں اس قسم کا شک بھی اکثر و بیشترواقع ہوتا ہو اور فی الوقت غالب گمان بھی قائم نہ ہو رہا ہو تو تعداد رکعات میں اقل کا اعتبار کیا جائے گا ، یعنی نمازی کو تین یا چار رکعات کے مابین شک ہوا،   یہ شک پہلے بھی ہوتارہا ہو اور اب کسی جانب غالب گمان نہ ہورہا ہو ، اسے  چاہیے تین رکعات کا اعتبار کرے اور ایک رکعت مزید ملا کر   نماز کے آخر میں سجدہ سہو کرے ۔

حاشیہ ابن عابدین میں ہے :

"(قوله: المذكور في النص) أي الترتيب المذكور في آية الوضوء. وفيه إشارة إلى أنه ليس المراد في قول الكنز وغيره: والترتيب المنصوص النص الأصولي، بل المراد المذكور، إذ ليس في الآية ما يفيد الترتيب؛ فلم يكن منصوصا عليه فيها (قوله: وهو مطالب بالدليل) أي أنه لا حاجة لنا إلى الدليل على عدم الافتراض، لأنه الأصل ومدعيه مطالب به ولم يوجد، وقد علم الترتيب من فعله - عليه الصلاة والسلام - فقلنا بسنيته أفاده في البحر۔"

(الدر المختار مع رد المحتار ، باب سنن الوضوء ، ج:1،ص:122،ط:ایچ ایم سعید )

فتاوی شامی میں ہے :

"(وإذا شك) في صلاته (من لم يكن ذلك) أي الشك (عادة له)، وقيل: من لم يشك في صلاة قط بعد بلوغه، وعليه أكثر المشايخ، بحر عن الخلاصة، (كم صلى استأنف) بعمل مناف وبالسلام قاعداً أولى؛ لأنه المحل (وإن كثر) شكه (عمل بغالب ظنه إن كان) له ظن للحرج (وإلا أخذ بالأقل)؛ لتيقنه. 

(قوله: من لم يكن ذلك عادة له) هذا قول شمس الأئمة السرخسي واختاره في البدائع، ونص في الذخيرة على أنه الأشبه. قال في الحلية: وهو كذلك. وقال فخر الإسلام: من لم يقع له في هذه الصلاة واختاره ابن الفضل.

(قوله: وقيل إلخ) ثمرة الخلاف تظهر فيما لو سها في صلاته أول مرة واستقبل، ثم لم يسه سنين ثم سها، فعلى قول السرخسي يستأنف؛ لأنه لم يكن من عادته وإنما حصل له مرة واحدة والعادة إنما هي من المعاودة أي والشرط أن لايكون معتاداً له قبل هذه الصلاة، وكذا على قول فخر الإسلام، خلافاً لما وقع في السراج من أنه يتحرى كما يتحرى على القول الثالث، كما في البحر. وفي عبارة النهر هنا سهو فاجتنبه.
(قوله: كم صلى) أشار بالكمية إلى أن الشك في العدد، فلو في الصفة كما لو شك في ثانية الظهر أنه في العصر وفي الثالثة أنه في التطوع وفي الرابعة أنه في الظهر، قالوا: يكون في الظهر، ولا عبرة بالشك، وتمامه في البحر.
(قوله: استأنف بعمل مناف إلخ) فلايخرج بمجرد النية، كذا قالوا. وظاهره أنه لا بد من العمل، فلو لم يأت بمناف وأكملها على غالب ظنه لم تبطل إلا أنها تكون نفلاً ويلزمه أداء الفرض، ولو كانت نفلاً ينبغي أن يلزمه قضاؤه وإن أكملها؛ لوجوب الاستئناف عليه، بحر، وأقره في النهر والمقدسي.
(قوله: وإن كثر شكه) بأن عرض له مرتين في عمره على ما عليه أكثرهم، أو في صلاته على ما اختاره فخر الإسلام. وفي المجتبى: وقيل: مرتين في سنة، ولعله على قول السرخسي، بحر ونهر.
(قوله: للحرج) أي في تكليفه بالعمل باليقين.
(قوله: وإلا) أي وإن لم يغلب على ظنه شيء، فلو شك أنها أولى الظهر أو ثانيته يجعلها الأولى ثم يقعد لاحتمال أنها الثانية ثم يصلي ركعة ثم يقعد لما قلنا، ثم يصلي ركعةً ويقعد لاحتمال أنها الرابعة، ثم يصلي أخرى ويقعد لما قلنا، فيأتي بأربع قعدات قعدتان مفروضتان وهما الثالثة والرابعة، وقعدتان واجبتان؛ ولو شك أنها الثانية أو الثالثة أتمها وقعد ثم صلى أخرى وقعد ثم الرابعة وقعد، وتمامه في البحر وسيذكر عن السراج أنه يسجد للسهو".

(الد ر الختار مع رد المحتار ،باب سجود السہو ،ص:92، ج:2، ط:ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144307102235

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں