بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

آیت الکرسی فرض نماز کے فوراً بعد پڑھنی چاہیے یا سنتوں کے بعد؟


سوال

 فرض نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھنے کے بارے میں پوچھنا تھا کہ اس کا نماز کے بعد کب پڑھنے کا حکم ہے؟  مثلًا اگر مغرب کی نماز ہے تو کیا تین فرض پڑھنے کے فوری بعد آیت الکرسی پڑھنی ہے یا بقیہ نماز پوری کر کے پڑھنی ہے؟  چوں کہ حدیث کے الفاظ کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ " جو شخص ہر فرض نماز پڑھنے کے بعد آیت الکرسی پڑھے اس کے اور جنت کے درمیان صرف موت کا فاصلہ ہے کہ مرتے ہی وہ سیدھا جنت میں جائے گا " مثال کے طور پہ اگر مغرب کی نماز ہے تو اس میں مراد پوری نماز کو ہم فرض نماز کہیں گے یا پھر تین فرائض کو فرض نماز کہیں گے؟

جواب

واضح رہے کہ فرض نمازوں کے بعد مختلف دعائیں اور اَذکار احادیث مبارکہ میں  رسول اللہ ﷺ سے منقول ہیں،  اُن میں سے بعض مختصر ہیں اور بعض طویل ہیں، اور حسبِ موقع اور ضرورت اُن سب کو یا اُن میں سے بعض کو نمازوں کے بعد پڑھنے کی اجازت ہے،

"بخاری شریف" میں ہے: آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہر فرض نماز کے بعد   "لا إله إلا اﷲ وحده لا شریك له، له الملك وله الحمد وهو علی کل شيءٍ قدیر، اللّٰهم لا مانع لما اعطیت ولا معطي لمامنعت ولاینفع ذا الجد منك الجد" پڑھتے تھے۔

دیگر روایات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بقدر مختلف اذکار اور دعائیں (مثلاً  اللهمّ أنت السلام ... الخ) پڑھنا بھی منقول ہے؛ اس لیے جتنی مقدار کی دعائیں اور اذکار احادیث سے ثابت ہیں، اتنی دعائیں اور اذکار پڑھ سکتے ہیں،جیسے آیت الکرسی وغیرہ۔ یہ دعائیں اور اذکار طویل دعا میں داخل نہیں ہیں، ان سے زیادہ مقدار طویل شمار ہوگی۔

البتہ  جن نمازوں کے بعد سننِ مؤکدہ ہیں، اُن میں طویل وظائف اور دعاؤں کا وقفہ نہ کرنا افضل ہے،  اِس لیے اَولیٰ واَفضل یہ ہے کہ فرض نماز کے بعد مختصر دعا کرکے سنن ادا کی جائیں اور بقیہ اَذکار سنتوں کے بعد پڑھے جائیں، اور سنتوں کے بعد پڑھے جانے والے اذکار بھی فرائض کی بعد ہی شمار ہوتے ہیں۔

لہذا فرض نماز پڑھنے کے فورًا بعد   سنت  سے  پہلے بھی اگر آیت الکرسی پڑھی جائے تو اس سے بہت زیادہ تاخیر لازم نہیں آتی، اس  لیے آیت الکرسی فرض نماز کے بعد پڑھنا ہی زیادہ افضل ہے، البتہ اگر کوئی سنت کے بعد پڑھنا چاہے تو بھی کوئی حرج نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ويكره تأخير السنة إلا بقدر اللهم أنت السلام إلخ. قال الحلواني: لا بأس بالفصل بالأوراد، واختاره الكمال. قال الحلبي: إن أريد بالكراهة التنزيهية ارتفع الخلاف. قلت: وفي حفظي حمله على القليلة؛ ويستحب أن يستغفر ثلاثا ويقرأ آية الكرسي والمعوذات ويسبح ويحمد ويكبر ثلاثا وثلاثين؛ ويهلل تمام المائة ويدعو ويختم بسبحان ربك.

(قوله إلا بقدر اللهم إلخ) لما رواه مسلم والترمذي عن عائشة قالت «كان رسول الله - صلى الله عليه وسلم - لا يقعد إلا بمقدار ما يقول: اللهم أنت السلام ومنك السلام تباركت يا ذا الجلال والإكرام» وأما ما ورد من الأحاديث في الأذكار عقيب الصلاة فلا دلالة فيه على الإتيان بها قبل السنة، بل يحمل على الإتيان بها بعدها؛ لأن السنة من لواحق الفريضة وتوابعها ومكملاتها فلم تكن أجنبية عنها، فما يفعل بعدها يطلق عليه أنه عقيب الفريضة.

وقول عائشة بمقدار لا يفيد أنه كان يقول ذلك بعينه، بل كان يقعد بقدر ما يسعه ونحوه من القول تقريبا، فلا ينافي ما في الصحيحين من «أنه - صلى الله عليه وسلم - كان يقول في دبر كل صلاة مكتوبة: لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير، اللهم لا مانع لما أعطيت ولا معطي لما منعت ولا ينفع ذا الجد منك الجد» وتمامه في شرح المنية، وكذا في الفتح من باب الوتر والنوافل.

(قوله واختاره الكمال) فيه أن الذي اختاره الكمال هو الأول، وهو قول البقالي. ورد ما في شرح الشهيد من أن القيام إلى السنة متصلا بالفرض مسنون، ثم قال: وعندي أن قول الحلواني لا بأس لا يعارض القولين لأن المشهور في هذه العبارة كون خلافه أولى، فكان معناها أن الأولى أن لا يقرأ قبل السنة، ولو فعل لا بأس، فأفاد عدم سقوط السنة بذلك، حتى إذا صلى بعد الأوراد تقع سنة لا على وجه السنة، ولذا قالوا: لو تكلم بعد الفرض لا تسقط لكن ثوابها أقل، فلا أقل من كون قراءة الأوراد لا تسقطها اهـ.

وتبعه على ذلك تلميذه في الحلية، وقال: فتحمل الكراهة في قول البقالي على التنزيهية لعدم دليل التحريمية، حتى لو صلاها بعد الأوراد تقع سنة مؤداة، لكن لا في وقتها المسنون، ثم قال: وأفاد شيخنا أن الكلام فيما إذا صلى السنة في محل الفرض لاتفاق كلمة المشايخ على أن الأفضل في السنن حتى سنة المغرب المنزل أي فلا يكره الفصل بمسافة الطريق. (قوله قال الحلبي إلخ) هو عين ما قاله الكمال في كلام الحلواني من عدم المعارضة ط. (قوله ارتفع الخلاف) لأنه إذا كانت الزيادة مكروهة تنزيها كانت خلاف الأولى الذي هو معنى لا بأس. (قوله وفي حفظي إلخ) توفيق آخر بين القولين، المذكورين، وذلك بأن المراد في قول الحلواني لا بأس بالفصل بالأوراد: أي القليلة التي بمقدار " اللهم أنت السلام إلخ " لما علمت من أنه ليس المراد خصوص ذلك، بل هو أو ما قاربه في المقدار بلا زيادة كثيرة فتأمل. وعليه فالكراهة على الزيادة تنزيهية لما علمت من عدم دليل التحريمية فافهم وسيأتي في باب الوتر والنوافل ما لو تكلم بين السنة والفرض أو أكل أو شرب، وأنه لا يسن عندنا الفصل بين سنة الفجر وفرضه بالضجعة التي يفعلها الشافعية. (قوله والمعوذات) فيه تغليب، فإن المراد الإخلاص والمعوذتان ط. (قوله ثلاثا وثلاثين) تنازع فيه كل من الأفعال الثلاثة قبل."

(‌‌رد المحتار، كتاب الصلاة، ‌‌باب صفة الصلاة، ج: 1، ص: 530، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411100568

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں