بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اوابین کی نماز کے فضائل


سوال

"اوابین"  کی  نماز کے  فضائل بتادیں!

جواب

عام طور پر مغرب کے فرض اور سنتوں کے بعد جو نوافل پڑھے جاتے ہیں، انہیں ’’صلاۃ الاوابین‘‘ کہتے ہیں، ان کی کم از کم تعداد  چھ اور زیادہ سے زیادہ بیس ہے۔ یہ نماز مستحب ہے۔  مفتی بہ قول کے مطابق یہ چھ  رکعات مغرب کے بعد کی دو رکعات سنتِ مؤکدہ  کے علاوہ ہیں۔ البتہ بعض فقہاء  فرماتے ہیں کہ سنتِ مؤکدہ کو ملا کر چھ رکعات ادا کرنے سے بھی یہ فضیلت حاصل ہوجائے گی۔ اوابین کی نماز کا طریقہ وہی طریقہ ہے جو عام نوافل کا ہے، اور اوابین کی چھ رکعات ، دو ،دو رکعات کرکے پڑھنا زیادہ بہتر ہے۔

اوابین کی نماز کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے: ’’جو شخص نماز مغرب کے بعد چھ رکعات (اوابین کی نماز) پڑھے گا، اور ان کے درمیان کوئی غلط بات زبان سے نہ نکالے گا تو یہ چھ رکعات ثواب میں اس کے لیے بارہ سال کی عبادت کے برابر قرار پائیں گے‘‘۔

اور بعض صحیح احادیث میں چاشت کی نماز کو سورج چڑھنے کے بعد یعنی جب سورج میں تمازت آجائے  اس وقت،  پڑھنے  کو "اوابین کی نماز" کہا گیا ہے، اور احادیث میں چاشت کے بہت فضائل  وارد ہوئے ہیں، مثلًا ایک حدیث میں ہے جو چاشت کے وقت بارہ رکعت ادا کرے تو اللہ تعالیٰ اسے سونے کا محل عطا فرمائیں گے، مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ کیجیے:

چاشت کی نماز کی فضیلت

تہجد، اشراق، چاشت کی نمازوں کی کعات احادیث کی روشنی میں

سنن الترمذي ت شاكر (2/ 299):

"عن أبي سلمة، عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من صلى بعد المغرب ست ركعات لم يتكلم فيما بينهن بسوء عدلن له بعبادة ثنتي عشرة سنةً»".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 13):

"(وست بعد المغرب) ليكتب من الأوابين (بتسليمة) أو ثنتين أو ثلاث والأول أدوم وأشق وهل تحسب المؤكدة من المستحب ويؤدى الكل بتسليمة واحدة؟ اختار الكمال: نعم.

(قوله: بتسليمة أو ثنتين أو ثلاث) جزم بالأول في الدرر، وبالثاني في الغزنوية، وبالثالث في التجنيس كما في الإمداد، لكن الذي في الغزنوية مثل ما في التجنيس، وكذا في شرح درر البحار. وأفاد الخير الرملي في وجه ذلك  أنها لما زادت عن الأربع وكان جمعها بتسليمة واحدة خلاف الأفضل، لما تقرر أن الأفضل رباع عند أبي حنيفة؛ ولو سلم على رأس الأربع لزم أن يسلم في الشفع الثالث على رأس الركعتين، فيكون فيه مخالفة من هذه الحيثية، فكان المستحب فيه ثلاث تسليمات ليكون على نسق واحد. قال: هذا ما ظهر لي، ولم أره لغيري".  

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144210201059

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں