عورتوں کی جماعت جائز ہے ؟
فرض نماز ہو یا نفل، عورت، مردوں کے لیے امام نہیں بن سکتی یعنی عورت کی اقتدا میں مرد کی نماز ہی نہیں ہوگی۔ اور اسی طرح عورت کا عورتوں کے لیے امام بننا بھی مکروہِ تحریمی ہے، لہٰذا صرف عورتوں کی جماعت منعقد کرنے کی صورت میں چوں کہ عورت کا امام بننا لازم آئے گا، اس لیے عورتوں کی جماعت کرانا جائز نہیں، بلکہ مکروہِ تحریمی ہے۔
"فعلم أن جماعتهن وحدهن مکروهة". (إعلاء السنن ۴؍۲۲۶):
"عن علي بن أبي طالب رضي اللّٰه عنه أنه قال: لا تؤم المرأة. قلت: رجاله کلهم ثقات". (إعلاء السنن ۴؍۲۲۷ دار الکتب العلمیة بیروت)
فتاوی شامیمیں ہے:
"ویکره تحریماً جماعة النساء ولو في التراویح - إلی قوله - فإن فعلن تقف الإمام وسطهن فلو قدمت أثمت".
قال الشامي:
"أفاد أن الصلاة صحیحة وأنها إذا توسطت لاتزول الکراهة وإنما أرشد و إلی التوسط؛ لأنه أقل کراهة التقدم". (شامي ۲؍۳۰۵)
وفیه أيضاً: "(قوله: ويكره تحريماً) صرح به في الفتح والبحر (قوله: ولو في التراويح) أفاد أن الكراهة في كل ما تشرع فيه جماعة الرجال فرض أو نفل". (1/565) فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144109201079
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن