بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

13 محرم 1447ھ 09 جولائی 2025 ء

دارالافتاء

 

کیاعورت خود اپنا مہر مقرر کر سکتی ہے؟


سوال

کیا حق مہر لڑکی خود طے کر سکتی ہے؟ شریعت میں کیا حکم ہے؟

جواب

مہر عورت کا حق ہے اور اس کی ادائیگی شوہر کے ذمہ لازم ہوتی ہے، اس لیے میاں بیوی کی باہمی رضامندی سے کوئی مقدار متعین کی جائے گی، یعنی مہر صرف میاں یا بیوی میں سے کسی ایک کی مرضی سے متعین نہیں کیا جائے گا بلکہ دونوں کی رضامندی سے ہی مقرر کیا جائے گا،  البتہ 2.625 تولہ چاندی یا اس کی مالیت کے برابر رقم سے کم مہر مقرر نہیں کیا جا سکتا۔

الدر مع  الرد میں ہے:

"(ولو نكحت بأقل من مهرها فللولي) العصبة (الاعتراض حتى يتم) مهر مثلها (أو يفرق) القاضي بينهما دفعا للعار.

(قوله الاعتراض) أفاد أن العقد صحيح. وتقدم أنها لو تزوجت غير كفء. فالمختار للفتوى رواية الحسن أنه لا يصح العقد، ولم أر من ذكر مثل هذه الرواية هنا، ومقتضاه أنه لا خلاف في صحة العقد، ولعل وجهه أنه يمكن الاستدراك هنا بإتمام مهر المثل، بخلاف عدم الكفاءة والله تعالى أعلم...(قوله دفعا للعار) أشار إلى الجواب عن قولهما ليس للولي الاعتراض. لأن ما زاد على عشرة دراهم حقها ومن أسقط حقه لا يعترض عليه ولأبي حنيفة أن الأولياء يفتخرون بغلاء المهور ويتعيرون بنقصانها فأشبه الكفاءة بحر والمتون على قول الإمام."

(کتاب النکاح،‌‌باب الكفاءة،ج:3،ص:94،ط:سعید)

رد المحتار میں ہے:

"والواجب بالعقد إنما هو مهر المثل، ولذا قالوا إنه الموجب الأصلي في باب النكاح وأما المسمى، فإنما قام مقامه للتراضي به."

(‌‌کتاب النکاح،باب المهر،ج:3،ص:100،ط:سعید)

الدر المختار میں ہے:

"(أقله عشرة دراهم) لحديث البيهقي وغيره "لا مهر أقل من عشرة دراهم."

(‌‌کتاب النکاح،باب المهر،ج:3،ص:101،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144610100952

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں