بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اولاد کے درمیان مال کی تقسیم


سوال

ایک آدمی کی دوبیویاں ہیں ،دونوں سے اولاد ہے ،پہلی بیوی کو طلاق دےدی ،اب والد مال تقسیم کرنا چاہتا ہے دوسری بیوی کی اولاد کے درمیان ،تو کیا مطلقہ کی اولاد اس تقسیم میں شامل ہوگی یانہیں ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص کے لیے اپنی زندگی میں اپنی جائیداد تقسیم کرنا شرعاً ہبہ (گفٹ) کہلاتا ہے ،جس کے حوالے سے شریعت نے یہ حکم دیا ہے کہ اولاد میں برابری کریں ،اولاد میں مطلّقہ بیوی اور غیر مطلّقہ بیوی  سب کی اولاد شامل ہے ، اولاد میں  سے کسی کو شرعی وجہ کے بغیر زیادہ اور کسی کو کم دینا باعثِ گناہ ہے ،البتہ اگر اولاد میں سے کوئی زیادہ خدمت گزار ، دین دار یا ضرورت مند  ہو تو اسے دوسروں کی بہ نسبت زیادہ دینے کی بھی اجازت ہوتی ہے ، لہذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ والد اپنی خوشی سے   کسی کے جبر و اکراہ کے بغیر اپنی جائیداد اپنی زندگی میں  تقسیم کرنا چاہتا ہو تو وہ اپنے  لیے  اس قدر رکھ لے جس سے بقیہ زندگی بغیر محتاجگی کے زندگی گزار سکے ،اس کے بعد بقیہ جائیداد دونوں بیویوں (مطلّقہ و غیر مطلّقہ) کی اولاد   میں برابری کے ساتھ  تقسیم کردے اور  ہر ایک کو اپنا حصہ مکمل قبضہ اور تصرف کے ساتھ دے دے، بلا وجہ اولاد کے درمیان کمی بیشی کرنا جائز نہیں،دوسری بیوی کو بھی 1/8 حصے تک دےدے۔

حدیث شریف میں ہے:

'' وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه» . وفي رواية ...... قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم»''۔

(مشکاۃ  المصابیح، باب العطايا، ج:1 / ص:261، ط:قديمي)

"ترجمہ:حضرت نعمان ابن بشیر  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن ) ان کے والد (حضرت بشیر رضی اللہ عنہ) انہیں رسول کریمﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے  اپنے اس بیٹے کو ایک غلام ہدیہ کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟، انہوں نے کہا :  ”نہیں “، آپ ﷺ نے فرمایا: تو پھر (نعمان سے بھی ) اس غلام کو واپس لے لو۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ ……  آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو"۔

(مظاہر حق، باب العطایا، ج:3  / ص:193، ط: دارالاشاعت)

فتاوی شامی میں ہے:

"أقول: حاصل ما ذكره في الرسالة المذكورة أنه ورد في الحديث أنه صلى الله عليه وسلم قال: «سووا بين أولادكم في العطية ولو كنت مؤثرًا أحدًا لآثرت النساء على الرجال»، رواه سعيد في سننه وفي صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير: «اتقوا الله واعدلوا في أولادكم»، فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا والوقف عطية فيسوي بين الذكر والأنثى، لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة. وفي الخانية : و لو وهب شيئًا لأولاده في الصحة، وأراد تفضيل البعض على البعض روي عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره، و روى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم، وعليه الفتوى، و قال محمد : ويعطي للذكر ضعف الأنثى، وفي التتارخانية معزيًا إلى تتمة الفتاوى قال: ذكر في الاستحسان في كتاب الوقف :وينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في العطايا والعدل في ذلك التسوية بينهم في قول أبي يوسف وقد أخذ أبو يوسف حكم وجوب التسوية من الحديث، وتبعه أعيان المجتهدين، وأوجبوا التسوية بينهم وقالوا يكون آثما في التخصيص وفي التفضيل".

(رد المحتار، كتاب الوقف، ج:4 / ص:444، ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401101422

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں